بیعت عامہ کے لیے مسجد میں دوسرے دن کی صبح کا وقت مقرر ہوا۔[1] چنانچہ وہ صبح بھی آگئی، گہما گہمی کا دن ہوا، اور آج ایک قطعی فیصلہ ہونے والا تھا، امیر المومنین رضی اللہ عنہ اپنا مکمل لباس زیب تن کرکے مسجد میں تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثنا کے بعد لوگوں کے سامنے صحابہ کی ان کوششوں کو واضح کیا، جو خلافت کے تعلق سے آپ پر آزمائی گئی تھیں اورکہا: میں تمھارے معاملات (خلافت) کو اٹھانا نہیں چاہتا تھا، لیکن آپ لوگو ں نے مجھے ہی مجبور کیا، تمھارے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا، تمھارے بیت المال کی چابیاں میرے پاس ہیں، لیکن سن لو! تمھاری اجازت کے بغیر میں اس میں سے ایک درہم بھی لینے والا نہیں ہوں۔[2] مزید فرمایا: اے لوگو! یہ خلافت خالص تمھارا معاملہ ہے، اس کا حق صرف اسی شخص کو ہے جسے تم اجازت دو، گزشتہ کل ہماری مجلس ایک فیصلہ کو انجام تک پہنچانے پر ختم ہوئی تھی، لہٰذا اگر چاہو تو اس کے لیے بیٹھوں، ورنہ مجھے کسی پر کوئی غصہ اور اعتراض نہیں ہے، پھر آپ نے سب کو مخاطب کرکے بلند آواز سے کہا: کیا آپ لوگ میری بات سے راضی ہو؟ سب نے جواب دیا: ہاں۔ پھر آپ نے کہا: ((اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہِمْ )) ’’اے اللہ! تو ان پر گواہ رہ‘‘ اس کے بعد لوگ آگے بڑھ کر آپ سے بیعت کرنے لگے۔[3] بیعت عامہ مکمل ہونے کے بعد امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! آپ لوگوں نے مجھ سے اسی چیز پر بیعت کی ہے جس پر مجھ سے پہلے میرے ساتھیوں (ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم ) سے بیعت کرچکے ہو، اب جب کہ تم مجھ سے بیعت کرچکے ہو تو میری مخالفت کا اختیار نہیں رہا، امام کے لیے استقامت اور رعایا کے لیے تسلیم و رضا ضروری ہے، اور یہ بیعت عامہ ہے…… الخ۔[4] مذکورہ منشور مرتضوی کے اسباق، فوائد، عبرت اور مواعظ 1۔ شورائیت کا اصول: سابقہ خلفاء کی طرح چوتھے خلیفہ راشد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت بھی شورائیت کے اصول سے قطعاً مختلف نہ تھی، جس پر گذشتہ خلفاء کی بیعت عمل میں آئی تھی۔ باوجودیہ کہ امت مسلمہ سخت بحرانی دور سے گزر رہی تھی اور اسے سیاہ ترین حالات اورپے درپے مشکلات کا سامنا تھا، ہر چند کہ حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن بیعت خلافت کسی جماعتی، خاندانی، قبائلی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی وصیت اور عہد کی بنیاد پر منعقد نہ ہوئی۔ اگر وہاں اس طرح کی کوئی بھی بات ہوتی تو مجمع عام میں اتنی طویل گفتگو کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی علی رضی اللہ عنہ منصب امامت کو لینے سے انکار کرتے، بلکہ اس کے برعکس سب سے پہلے آپ ہی اپنے حق کا مطالبہ کرتے، جب کہ حقیقی واقعہ یہ ہے کہ لوگ آپ کو خلافت کے لیے آگے دھکیل رہے تھے اور بضد تھے کہ ہمارے مطالبہ کو قبول کرلیں، لیکن آپ ان سے بچ نکلنے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |