Maktaba Wahhabi

1040 - 1201
وہ حلال ہے اس لیے کہ ہمارے ائمہ کو یہ اختیار دیا جاچکا ہے کہ پس وہ جسے حلال کریں وہ حلال ہے اور جسے حرام کردیں وہ حرام ہے۔[1] تحلیل و تحریم کے بارے میں یہ تو رہے شیعی عقائد، لیکن کتاب اللہ اور سنت رسول اس کی یکسر تردید کرتے ہیں، چنانچہ مذکورہ دونوں مصادر شریعت میں اس بات پر ایمان لانے کو توحید کی اساس میں شمار کیا گیا ہے کہ مُشَرِّ ع (شریعت ساز) صرف اللہ واحد کی ذات اقدس ہے، تحلیل و تحریم کا اختیار صرف اسی کو ہے، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے انبیاء و رسول اللہ کی اس شریعت کو اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں، ایسی صورت میں اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے امام کوتحلیل و تحریم کا اختیار حاصل ہے تو وہ اس الٰہی فرمان میں داخل ہے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ ۚ (الشوری: 21) ’’یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘ بہرحال شریعت سازی کا حق صرف رب العباد کو حاصل ہے، اللہ کی طرف سے انبیاء و رسول اس شریعت کے پیغامبر ہیں وہ صرف انھیں چیزوں کو حلال و حرام کہتے ہیں جن کا ان کو اللہ نے حکم دیاہو اور وحی کی ہو اللہ تعالیٰ نے تحلیل و تحریم کے مسئلہ میں اسلامی شریعت کو چھوڑ کر بزرگوں اور مشائخ کے تحلیل و تحریم پر عمل کرنے کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ (التوبۃ:31) ’’انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔‘‘ پس آیت میں اللہ نے حرام کی تحلیل اور حلال کی تحریم میں علماء اور درویشوں کی اطاعت کو ان کی عبادت قرار دیا ہے۔[2] اس وجہ سے کہ ان علماء و درویشوں کی طرف سے آئے ہوئے حلال و حرام کو ان لوگوں نے قبول کرلیا، حالانکہ اسے صرف اللہ ہی کی طرف سے قبول کرنا چاہیے تھا۔[3] 5۔ دنیا و آخرت ائمہ کے دست تصرف میں: ’’الکافی‘‘ کے مصنف نے اس عنوان سے ایک باب باندھا ہے: ’’باب ان الارض کلہا للإمام‘‘ ’’باب اس بیان میں کہ پوری روئے زمین ائمہ کے لیے ہے‘‘پھر اس باب میں بروایت ابوبصیر عن ابی عبداللہ علیہ السلام لکھا کہ انھوں نے فرمایا: ’’کیا تمھیں نہیں معلوم کہ دنیا وآخرت سب کچھ امام کے لیے ہے، وہ اسے جہاں چاہے استعمال کرے اور جسے چاہے دے دے، اللہ کی طرف سے اسے اس بات کی اجازت ہے۔‘‘[4]
Flag Counter