اس سال وزارۃ الاوقاف کے واعظین کے وفد میں جانے والے ایک عالم دین جب قبر پرستی کا وہ منظر دیکھ کر لوٹے تو کہنے لگے کہ قبر پرستوں کی حرکتوں کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ انھیں وعظ و نصیحت اب کام دینے والی نہیں ہے، انھیں ڈنڈوں اور کوڑوں سے سمجھانے کی ضرورت ہے، اگر انھیں کسی صحیح دینی فریضہ کی طرف دعوت دی جائے تو نفرت سے بھاگتے ہیں، ان کی مذہبی بے راہ روی جاننے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ مذکورہ قبر کے پاس وہ نذر و نیاز پیش کر رہے تھے، اور رو رو کر اور گڑگڑا کر دعائیں کر رہے تھے۔[1] ھ:…کیا مزارات بدعت ہیں؟: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے سب سے مکرم و معزز بندہ تھے، سب سے زیادہ متقی اور اللہ سے خوف و خشیت والے تھے، صحابہ کے نزدیک آپ کی جو توقیر و عظمت اوراحترام و عقیدت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اوراپنی رہائش گاہ میں آپ مدفون ہوئے، اور تمام صحابہ نے آپ کی قبر کو جانا اور آپ کی قبر دنیا کی سب سے باعظمت اور افضل قبر رہی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کسی صحابی نے اپنے عہد میں نہ توآپ کی قبر پختہ کی نہ اس پر قبہ بنایا اور نہ اسے مزار کی شکل دی، خلفائے راشدین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین صحابہ میں سے کسی نے بھی بطور یادگار یا ذکر و عبادت کا مناسب موقع جان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس نہ کبھی عرس منایا اور نہ کبھی میلہ لگایا، اور نہ ہی سال کاکوئی دن خاص کیا، بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس سے جب وہ لوگ گزرتے تو اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر درُود و سلام پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد بھی آپ کی اطاعت، سنت کی اتباع، احکامات کی بجاآوری اور ممنوعات سے اجتناب کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اللہ کے اس فرمان کی پیروی تھی: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ (الحشر:7) ’’اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو۔‘‘ اور فرمایا: لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:21) ’’بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفا ایسے قدوۂ حسنہ (عمدہ نمونہ) ہیں جن کی سنتوں اور طریقہ کی پیروی کرنے اور مضبوطی سے پکڑنے کا ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، لیکن کسی مسلمان مؤرخ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے سال کے کسی ایک مخصوص دن یا رات میں برکت کی امید سے یا ذکر و عبادت کے لیے آپ کی قبر کے پاس کبھی کوئی اجتماع کیا ہو اور نہ ہی میلہ لگایا ہو، حالانکہ یہ لوگ اللہ کے اولیائ، ہدایت یافتہ گروہ، حق کے مددگار اور دین کے پیشوا تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ چیزوں کو ہم سے زیادہ جانتے تھے، آپ کی اطاعت پر |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |