ہم سے زیادہ کوشاں رہتے تھے، اور ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توقیر و عظمت تھی وہ بھی سب پر واضح اور مسلم ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسی چیز ہے جس کا حکم قرآن نے دیا ہے اوراس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس سالانہ عرس یا میلہ لگانا کارثواب ہوتاتو صحابہ اور خلفاء کی برگزیدہ ہستیاں اسے کر گزرنے میں ہم پر سبقت لے جاتیں، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنی موت کے بعد اپنی قبر کے پاس یا اپنے کسی صحابی کی قبر کے پاس ایسا کوئی کام کرنے کا حکم نہیں دیا، او رنہ ہی آپ کی سنت میں اس کا کوئی صحیح ثبوت ملتاہے۔ اس لیے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ آپ کے صحابہ نے قبروں کے پاس ایسا کوئی کام کیا جسے عبادت یا کارثواب کہا جائے، باوجودیہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی کامل عبودیت حاصل تھی اور اللہ کی پسندیدہ چیزوں کو سب سے زیادہ جانتے تھے اور آپ اپنی امت کے ایسے خیرخواہ اور ان کے مفاد کے لیے سوچنے والے تھے جس کی شہادت قرآن نے دی ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾ (التوبۃ:128) ’’بلاشہ یقینا تمھارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ سیرت نبوی کا درس تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر پر (عرس لگانے) سے ہمیں منع فرمایا ہے: (( لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا ، وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَصَلُّوْا عَلَیَّ ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ۔))[1] ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، اور میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور مجھ پر درُود بھیجو، بے شک تمھارا درُود مجھے پہنچتا ہے تم جہاں کہیں بھی رہو۔‘‘ حدیث میں وارد ’’عید‘‘ کا لفظ عود کے معنی میں ہے، جس کا مطلب ہے کسی چیز کا بار بار لوٹنا اور واپس آنا، چنانچہ عید کو عید اسی لیے کہا جاتاہے کہ وہ ہر سال آتی ہے۔ پس حدیث مذکور میں قبر کو عیدگاہ بنانے کا مطلب ہے کہ میری قبر کی زیارت کے لیے ہر مہینا یا ہر سال میں کوئی خاص وقت یا خاص دن مقرر نہ کرو، وہ زیارت ہرسال عید کی طرح اجتماع کی شکل و صورت نہ ہو، اور نہ ہی میری قبر کی زیارت کو حج کی طرح کوئی عبادت سمجھو کہ جس کے لیے دور دراز کا سفر طے کرتے ہو، ان سب کاموں سے بچو، یہودیوں اور نصرانیو ں کی مشابہت نہ کرو، کیونکہ وہ لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں اور پھر اسی شدتِ غلو اور انتہا پسندی کے نتیجہ میں انھوں نے مسیح علیہ السلام کو ’’الٰہ‘‘ کا درجہ دے دیا ہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس مہلک عادت سے ڈراتے ہوئے فرمایا تھا: ((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرِتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ، فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |