ایسا داعی و مدرس مخلص نہیں ہونا اس لیے مخلص داعی و مدرس کی پوری کوشش اس بات کے لیے ہوتی ہے کہ لوگ حق کے پرستار ہوجائیں اگرچہ اس میں میری رائے کی مخالفت ہی کیوں نہ ہو رہی ہو، یہی حال امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بھی تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: تم جیسے پہلے فیصلہ کرتے تھے کرو، میں (شیخین سے) اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں تاکہ لوگ متحد رہیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر و عثمان) کی طرح اس دنیا سے چل بسوں۔[1] علی رضی اللہ عنہ نے ام ولد کی بیع کے سلسلہ میں اپنی رائے سے تنازل اختیار کرتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ام ولد کے بیع کو جائز نہیں سمجھتے تھے جب کہ علی رضی اللہ عنہ کی رائے میں ام ولد کی بیع جائز تھی۔ [2] آپ کا یہ طرز عمل داعیان اسلام اور طلباء مدارس اسلامیہ کو سبق دیتا ہے کہ جائز رائے میں اختلاف واقع ہونا طبعی چیز ہے، اس سے تنگ دل ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی اس سے اسلامی وحدت کو نقصان پہنچانا چاہیے، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ دعوتی میدان میں کام کرنے والے لوگ اس پہلو سے اپنی تحریک پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ ہمارا طرز عمل کیا ہے!؟ اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس اخلاق حسنہ سے تمام داعیان اسلام کو آراستہ کردے، تاکہ اپنی وفات کے بعد ثواب الٰہی کے مستحق ہوں اور دنیا میں ان کی کوششوں کے ثمرات دیکھنے کو ملیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی عبادات خلوص و للہیت ، اتباع نبوی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ آپ کی پوری زندگی نوع بہ نوع عبادات سے عبارت تھی۔ آپ اس فرمان الٰہی کی مجسم تصویر تھے: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾ (الانعام:162-163) ’’کہہ دیجئے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔‘‘ تزکیۂ نفس اور شریعت اسلامیہ پر استقامت میں عبادات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو نہایت باریکی سے سمجھا اور استقامت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ استقامت اختیار کرو، یعنی فرائض کو ادا کرو۔[3] شکر الٰہی: انسان جن نعمتوں سے نوازا گیا ہے انھیں اپنے مقصد وجود کے لیے استعمال کرے، یہی شکرگزاری ہے۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |