’’پس اللہ کو پکارو، اس حال میں کہ دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والے ہو، اگرچہ کافر برا مانیں ۔‘‘ اور فرمایا: هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ (غافر:65) ’’وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سواسے پکارو، اس حال میں کہ اسی کے لیے دین کو خالص کرنے والے ہو۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سبق سیکھا تھا کہ جب تک اعمال میں خلوص و للہیت نہ ہو وہ اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں، گویا عبادات کی قبولیت کے لیے نیت و اخلاص بنیادی شرائط ہیں ، اگر عبادات میں اخلاص نہیں ہے تو اسے عبادت گزار کے منہ پر مار دیاجاتا ہے، جیسا کہ حدیث قدسی میں وارد ہے: ((اَنَا أُغْنِی الشُّرَکَائَ عَنِ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیْ غَیْرِیْ تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ۔))[1] ’’میں شرک سے قطعاً بے نیاز ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا، میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دوں گا۔‘‘ آپ شرک کی تمام انواع واقسام سے برسرپیکار رہے، خواہ وہ شرک ربوبیت ہو یا شرک الوہیت اور ہمیشہ حریص رہے کہ تمام تر حرکات و سکنات اخلاص و للہیت پر مبنی ہوں۔ آپ تمام لوگوں کو عموماً لیکن طلباء کو خصوصاً ریاکاری سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے، چنانچہ فرمایا: اے علم کے پاسبانو! جو کچھ سیکھو اس پر عمل کرو، عالم وہی ہے جو اپنے علم کے مطابق عمل کرے، اس کے علم اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو، عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو علم سیکھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ جائے گا، ان کے ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا، علم و عمل میں مخالفت ہوگی وہ حلقے اور مجالس منعقد کریں گے اور ایک دوسرے پر فخر جتلائیں گے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی کا ہم نوا کسی دوسرے کے ساتھ بیٹھ گیا تو وہ اس پر سخت ناراض ہوگا اور اسے چھوڑ دے گا ایسے لوگوں کے اعمال اس مجلس سے اٹھ کر اللہ کے پاس ہرگز جانے والے نہیں ہیں۔[2] اس واقعہ میں آپ نے برتری و شہرت کے خواہاں ریاکار واعظین و مدرسین کی ایک انتہائی خطرناک بیماری کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اگر اس کے شاگرد کسی دوسرے عالم کی مجلس میں بیٹھ جائیں، جس میں ان کی مصلحت و مفاد ہو تو ایسے مدرسین ان طلباء پر سخت برہم ہوتے ہیں، گویا انھیں طلباء کی افادیت اور خیرخواہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف اپنی شہرت اور بڑائی عام کرنا مقصود ہوتا ہے، یہ بات وہ مدرسین و واعظین اگرچہ اپنی زبان سے نہ کہیں، لیکن حکایت حال اس کی عکاسی کرتا ہے۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |