Maktaba Wahhabi

957 - 1201
گی اور جب توبہ کرلے گا تو مل سکتی ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ آیت کو تمام اوقات پر محمول کرنا واجب ہے اسے ظالم نہیں پاسکتا اگرچہ بعد میں توبہ کرلے۔[1] تنقید و تردید: ا:… ’’عہد‘‘ کے معني میں اسلاف کا اختلاف: مذکورہ آیت میں ’’عہد‘‘ سے کیا مراد ہے اس سلسلہ میں اسلاف مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سدی کا قول ہے کہ اس سے نبوت مراد ہے یعنی میری نبوت کو ظالم لوگ نہیں پاسکتے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے امامت مراد ہے یعنی میں کسی ظالم کو امام نہیں بناؤں گا کہ جس کی پیروی کی جائے۔ جب کہ قتادہ، ابراہیم نخعی، عطائ، حسن اور عکرمہ کا قول ہے کہ اللہ کے عہد بمعنی ’’امان کو آخرت میں ظالم لوگ نہیں پاسکتے۔ البتہ دنیا میں ظالم اسے پاسکتا ہے یعنی اللہ کے عذاب سے بچ سکتا ہے کہ وہ مزے لے لے کر کھا پی لے اور زندگی گزار لے‘‘، امام زجاج رحمۃ اللہ علیہ اس تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بہترین قول ہے۔ پس معنی یہ ہے کہ میرے امان کو ظالم لوگ نہیں پاسکتے، میں انھیں اپنے عذاب سے نہیں بچاؤں گا اور ظالم سے مراد مشرک ہیں۔ ربیع بن انس اور ضحاک کا قول ہے کہ عہد سے مراد اللہ کا وہ معاہدہ جو اس نے اپنے بندوں سے لیا ہے یعنی دین۔ پس معنی یہ ہے کہ اللہ کے دین کو ظالم لوگ نہیں پاسکتے کیا اس معنی میں آپ قرآن کی یہ آیت کریمہ نہیں دیکھتے: وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ ﴿١١٣﴾ (الصَّآفآت: 113) ’’اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے ۔‘‘ آیت کریمہ کامفاد یہ ہے کہ اے ابراہیم تمھاری پوری ذریت حق پر نہیں ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول منقول ہے وہ یہ ہے کہ عہد سے مراد معاہدہ و پیمان ہے۔ پس آیت کامطلب ہے کہ ظالموں کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری نہیں، اگر تم نے کسی ظالم سے معاہدہ کیا ہے تو اسے توڑ دو۔[2] مختصراً جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ’’عہد‘‘ کی تفسیر کے بارے میں علمائے اسلاف کے اقوال مختلف ہیں۔ ان میں اکثریت کے نزدیک مسئلہ امامت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اگر کسی نے امامت کی تفسیر بھی کی ہے تو اس سے علم، نیکوکاری اور اقتداء کی امامت مراد لی ہے نہ کہ امامت بمعنی اقتدار و حکومت جو روافض کے نزدیک مفہوم و معہود ہے۔[3]
Flag Counter