آگ لگانے میں دریغ نہیں کیا۔[1] اس طرح کی روایات گھڑنے والا راوی دو جلیل القدر صحابہ یعنی طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کو خاص طور سے نشانہ بناتا ہے، اور ان دونوں کے ساتھ دیگر صحابہ جو لشکر میں شامل تھے ان کے بارے میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ محرمات الٰہیہ کے تقدس کو پامال کرنے میں بے باک تھے، قسمیں دے دے کر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین دلارہے تھے کہ یہ چشمہ ’’چشمۂ حوأب‘ ‘نہیں ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ شہادت کے طور سے ستّر (70) آدمیوں اور ایک روایت میں ہے کہ پچاس (50) آدمیوں کو پیش کیا۔ اس طرح شیعہ ورافضی مؤرخ ’’المسعودی‘‘ کی افترا پردازی کے مطابق یہ اسلامی تاریخ میں پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی۔[2] ان روایات کے پس پردہ طلحہ، زبیر اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کو طالع آزما اور ان کے دلوں میں کھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رحجان طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اور آپ کی دلی خواہش تھی کہ طلحہ ہی خلیفہ بنیں اور تر جیح کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح تیمی تھے۔ اسی طرح یہ روایات حصول اقتدار کے لیے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان اندورنی چپقلس کا تاثر دیتی ہیں، تو ان روایات کو پڑھتے ہوئے ہر صاحب نظر کے سامنے یہ بات ہونی چاہیے کہ یہ روایات سخت ترین ضعیف ہیں، ان میں کچھ کی اسناد منقطع ہیں، اور کچھ میں بکثرت مجہول راوی ہیں، اور کچھ روایات میں دونوں عیوب ہیں۔[3] افسوس صد افسوس! کہ دور حاضر کے بہت سے قلمکار اور مؤرخین جیسا کہ عقاد ’’عبقریۃ علی‘‘ میں اور طہ حسین ’’علی وبنوہ‘‘ میں ان روایات سے متاثر ہوئے، انھی پر اعتماد کیا اور ان کی نشرواشاعت ہوئی، حالانکہ یہ سب بے بنیادہیں۔[4] بصرہ پہنچ کر: سیّدنا طلحہ، زبیر عائشہ رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھیوں نے بصرہ پہنچ کر’’خریبۃ‘‘ کے قریب پڑاؤ ڈالا،[5] اور وہاں سے بصرہ کی سر برآوردہ شخصیات، شرفاء اور سرداران قبائل کو بلا بھیجا اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان سے مدد کی در خواست کی، واضح رہے کہ بصرہ کی اکثریت قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کی خواہاں تھی، البتہ ان کے سوچنے کا انداز مختلف تھا، ان لوگوں کے خیال میں تنہا خلیفہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس سلسلہ میں کوئی اقدام کرے اور یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر اور اس کی اطاعت کی حد یں توڑ کر اس بات کا مطالبہ کرنا کار گناہ ہے، تاہم جب انھوں نے دیکھا کہ یہ تحریک جنت کے بشارت یافتہ صحابہ، مجلس شوریٰ کے پاکیزہ و نامزد نفوس اور فقہ وبصیرت کی بے مثال خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا پر مشتمل ہے اور ان کا شرعی مقصد ہر طرح کے شکوک |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |