Maktaba Wahhabi

80 - 263
رحمۃ اللہ علیہ)تو ’’ڈھوک ڈھمن‘‘(اپنے گھر)چلے گئے۔ علامہ صاحب اتنے افسردہ ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگے‘ ہم لوگ رات بھر مطالعہ کرتے رہے اور نمازِ فجر کے بعد بھی تیاری کرتے رہے لیکن استاد صاحب چپ چاپ گھر چلے گئے‘ آج طلبہ میں اشتیاقِ علم کی یہ فروانی کہاں؟یہی وجہ ہے کہ انہیں علمی کمال بھی تو حاصل نہیں ہوتا۔‘‘[1] آپ نے اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر ارباب علم سے اکتسابِ فیض کیا۔ جامعہ محمدیہ رضویہ(رحیم یار خان)میں مولانا عبد المجید صاحب کی خدمت میں آپ تقریباً ایک سال‘ چھ ماہ تک نحووصرف‘ادب اور فقہ کی چند ابتدائی کتب پڑھتے رہے۔ پھر اپنے استاد صاحب کے ساتھ سراج العلوم(خان پور)تشریف لائے۔قرطبی‘شرح جامی‘ سلّم العلوم‘ ہدیۃ الحکمت اور تفسیر جلالین مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں جبکہ تلخیص المفتاح کے چند اسباق حضرت علامہ مفتی عزیر احمد بد ایوانی سے پڑھے۔ ذوقِ علم کی مزید طلب آپ کو لاہور کشاں کشاں جامعہ امدادیہ مظہریہ بندیال(ضلع خوشاب)لے گئی جہاں رئیس المناطقہ‘استاذ المدرسین حضرت علامہ عطاء محمد بندیالوی چشتی علیہ الرحمہ سے معقول ومنقول کی کئی کتابیں مثلاً مختصر المعانی‘قاضی مبارک‘حمد اللہ‘شمسِ بازغہ‘ صدرا‘خیالی‘مطول‘ مسلّم الثبوت‘ توضیح تلویح اور فقہ میں ہدایہ آخرین اور حدیث شریف میں مشکٰوۃ المصابیح اور جامع ترمذی شریف کو بالالتزام پڑھا۔ اس کے علاوہ آپ جامعہ قادریہ(فیصل آباد)بھی گئے۔ جہاں آپ نے مولانا ولی النبی صاحب سے اقلیدس اور تصریح پڑھی‘ جبکہ مولانا مفتی مختار حق صاحب سے ’’سراجی‘‘ پڑھی۔ یہ وہ گرامئی قدر اساتذہ کرام‘ جن کی تعلیم میں محنت ومشقت اورتربیت میں محبت وشفقت نے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایسا انمول ہیرا اور لاجواب نگینہ بنا دیا‘ جس کی چمک ودمک نے چہاردانگِ عالم میں لا تعداد طالبانِ حق کو فیض یاب کیا اور جس کا صدقہءِ جاریہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔[2] 1958ء میں جب حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ جامعہ محمدیہ رضویہ رحیم یار خان تشریف لائے تو اس وقت علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ کا دورِطالب علمی تھا آپ اپنے استاذِ محترم عبد المجید اویسی صاحب کی ایماء پر علامہ کاظمی صاحب کے دستِ مبارک پر’سلسلہ چشتیہ صابریہ‘‘ میں دولتِ بیعت سے فیض یاب ہوئے چنانچہ انہی کے نام کی نسبت سے آپ اپنے نام کے ساتھ’’سعیدی‘‘لکھتے ہیں۔ علامہ سعیدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اساتذہ میں سے حافظ عطاء محمد بندیالوی(متوفی 1419ھ)‘مفتی محمد حسین نعیمی(متوفی 1998ء)‘مولانا محمد یونس نعیمی مراد آبادی‘عزالئی زمان علامہ سید احمد سعید کاظمی(متوفی1986ء)سے تحریراً روایت حدیث کی سند حاصل کی‘اور وہ 1966ء سے تادم تحریر مسلسل کتب حدیث محض اللہ عزوجل کے فضل اور اس کے رسول
Flag Counter