Maktaba Wahhabi

80 - 1201
جہاں تک اس حدیث کے متن کا تعلق ہے تو وہ بھی چند اعتبار سے غیرمعتبر ہے، تجہیز، تکفین اور تدفین سے متعلق عہد نبوی میں جو نظام عموماً جاری تھا، یہ حدیث اس میں مبالغہ آمیزی اور انتہا پسندی پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ عورت کو غسل دینے اور اس کی تکفین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت رہی ہے کئی اعتبار سے یہاں اس کی مخالفت ہو رہی ہے، مثلاً: ٭ کسی عورت کی میت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے پانی ڈال کر غسل دیا ہو ایسا کوئی واقعہ آپ کی زندگی میں کہیں نہیں ملتا، آپ کی لخت جگر زینب کو غسل دلانے سے متعلق جو واقعہ حدیث میں ملتا ہے اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں غسل دیا تھا، بلکہ دیگر خواتین کو حکم دیا تھاکہ اسے ایسے ایسے غسل دیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں محمد بن سیرین سے روایت ہے، انھوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے او رکہا: بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اسے تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ اور اگر اس سے زیادہ کی ضرورت محسوس کرو تو مزید غسل دو اور آخر میں کافور استعمال کرلو، جب غسل دے کر فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتاؤ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب ہم غسل دے کر فارغ ہوگئیں توآپ نے ہماری طرف اپنا ازار بند بڑھایا اور کہا: اسے اس کو اوپر سے پہنا دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا۔[1] ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھ سے کوئی قبر کھودنا، پھر اس کی مٹی خود ہی باہر نکالنا اور پھر لحد میں لیٹ جانا، یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کا تذکرہ اس ضعیف حدیث کے علاوہ آپ کی زندگی میں کہیں نہیں ملتا، یہ سب عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و فرمودات کے خلاف ہیں اور مبالغہ و افراط پر مشتمل ہیں۔ ٭ غائب کے صیغہ سے دعا کا آغاز کرنا، پھر مخاطب کا صیغہ بعد میں استعمال کرنا، یہ اسلوب دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول شدہ ان ماثورہ دعاؤں کے خلاف ہے، جن کا آغاز صیغۂ مخاطب ’’اَللّٰہُمَّ اَنْتَ…‘‘ سے کہتے ہوئے ہوتا ہے۔ اس روایت میں مذکور دعا: ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ…‘‘ کے علاوہ ہمیں کہیں ان صیغوں سے دعا کا آغاز نہیں ملتا ہے۔ ٭ اس روایت کے ضعیف ہونے کی سب سے قوی دلیل راوی کا یہ اعتراف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف عادت یہ سب کام صرف ایک مرتبہ اسی مقام پر کیا تھا۔ شاید راوی یہ کہہ کر اس روایت کے لیے وجہ جواز پیش کرنا چاہتا تھا، لیکن حقیقت اور افسانے میں بڑا فرق ہے۔[2] برادران علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ : ابوطالب کے چار بیٹے تھے، ایک طالب (جن کے نام سے آپ کی کنیت ابوطالب تھی) دوسرے عقیل، تیسرے جعفر اور چوتھے علی، اور دو صاحبزادیاں تھیں، ام ہانی اور جمانہ اور یہ سب فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے بطن سے
Flag Counter