Maktaba Wahhabi

79 - 1201
اے اماں جان! اللہ آپ پر رحم فرمائے، میری ماں کے بعد آپ ہی میری ماں تھیں، آپ خود بھوکی رہ کر مجھے شکم سیر کرتی تھیں، خود نہ پہنتیں اور مجھے کپڑے پہناتی تھیں، خود اچھی چیز نہ کھاتیں بلکہ مجھے کھلاتی تھیں، یہ سب کچھ آپ اللہ کی رضا جوئی اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے کرتی تھیں، پھر آپ نے انھیں تین تین مرتبہ غسل دینے کا حکم دیا، جب آپ کے پاس کافور ملا ہوا پانی لایا گیا تو آپ نے اسے خود ان کے جسم پر انڈیلا، پھر اپنی قمیص اتاری اور اسے فاطمہ کو پہنا دیا، پھر اس کے اوپر ایک چادر سے کفن دے دیا، پھر اسامہ بن زید، ابوایوب انصاری، عمر بن خطاب اور ایک سیاہ فام غلام کو بلایا تاکہ ان کی قبر کھودیں، چنانچہ انھوں نے قبر کھودی۔ جب کھدائی لحد تک ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لحد اپنے ہاتھ سے کھودی، اس کی مٹی خود نکالی، اور جب لحد تیار ہوگئی تو آپ اس میں لیٹ گئے اور کہا: ((اَللّٰہُ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ، وَہُوَ حَيٌّ لَا یَمُوْتُ، اِغْفِرْ لِاُمِّیْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ اَسَدٍ، و لقنہا حجتہا و َوَسِّعْ عَلَیْہَا مَدْخَلَہَا بِحَقِّ نَبِیِّکَ وَالْأَنْبِیَائِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِیْ فَاِنَّکَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔)) ’’اللہ ہی ہے جو زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، وہ مرنے والا نہیں، اے اللہ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور حساب کے وقت صحیح با ت کہنے کی توفیق عطا فرما، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان سب کا واسطہ ہے کہ ان کی قبر کو کشادہ کردے، تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پھر آپ نے چار مرتبہ تکبیر کہی اور عباس و ابوبکر کو ساتھ لے کر انھیں قبر میں لحد کے اندر رکھ دیا۔[1] کچھ لوگوں نے اس روایت کو ذات اور حق کے وسیلہ سے دعا کرنے کے جواز کے لیے استدلال کیا ہے،[2] حالانکہ استاذ عبدالرحمن جبلان بن خضر العروسی نے اپنے ایم اے (M.A) کے مقالہ (Thesis) میں اس روایت کی تمام اسناد کو جمع کیا ہے۔[3] اور ثابت کیا ہے کہ یہ روایت پانچ اسناد سے مروی ہے، ان میں تین متصل اور دو مرسل ہیں، لیکن کوئی بھی سند مختلف علتوں سے خالی نہیں، سب کی سب سخت ضعیف ہیں، ان تمام روایات میں ضعف کی جو بھی نوعیت ہے وہ تو ہے ہی، مگر انس رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی حدیث کے علاوہ کسی میں بھی اس من گھڑت وسیلہ کا ذکر نہیں ہے۔ پس اس سلسلہ کی روایات اس حدیث کو بھی معلول کی فہرست میں شامل کردیتی ہیں، اس لیے کہ سب میں ضعف ہے اور ہر ایک کی علت ضعف دوسرے سے مربوط ہے، جس کی بنا پر حدیث کی عدم قبولیت اور ضعف میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔
Flag Counter