Maktaba Wahhabi

182 - 1201
سلسلہ موقوف ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور درپیش صورت حال کے بارے میں ان سے مشورہ لیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عائشہ کی براء ت اور ان کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ کی بیوی، ہم اس کے بارے میں بھلائی کے علاوہ دوسرا کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔‘‘ جب کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ پرکوئی تنگی نہیں کی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں ہیں، اگر آپ ان کی لونڈی سے دریافت کریں، تو وہ سچ سچ بتائے گی۔ چنانچہ آپ نے بریرہ کو بلایا او رکہا: ((اَیْ بَرِیْرَۃُ ہَلْ رَاَیْتِ مِنْ شَئْي یُرِیْبُکِ؟)) ’’اے بریرہ کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: نہیں حضور۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں اور بکری آکر کھا جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ یَعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ اَذَاہُ فِيْ أَہْلِ بَیْتِيْ؟ فَوَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَہْلِيْ إِلَّا خَیْرًا، وَ لَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا وَ مَا کَانَ یَدْخُلَ عَلَی أَہْلِيْ اِلَّا مَعِيَ۔))[1] ’’ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک و پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لو گ جس آدمی کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا، وہ جب بھی میرے گھر میں داخل ہوئے تو میرے ساتھ ہی داخل ہوئے۔‘‘ بہرحال سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مشورہ دیا تھا وہ کسی عداوت پر مبنی نہ تھا بلکہ جب اس گھناؤنے پروپیگنڈہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت رنجیدہ اور مضطرب دیکھا تو تسکین قلب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب داری کو ترجیح دی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کافی غیرت مند تھے اور آپ نے سوچا کہ فوری طور سے آپ کی بے چینی اور رنجیدگی کو دور کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بروقت جدا کردیں، یہاں تک کہ ان کی براء ت ثابت ہوجائے اور پھر ان کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کو واپس لوٹا لینا بھی ممکن ہوگا، اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں دو نقصانات کا اجتماع ہو جائے وہاں چھوٹے
Flag Counter