Maktaba Wahhabi

183 - 263
لفظ کا جامع مفہوم علامہ ابن قیم کی زبانی سنئے۔ العبادة عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطةغیبیة(ای فی العلم والتصرف)فوق الاسباب یقدر بها علی النفع والضرر فکل دعاء وثناء وتعظیم ینشا من هذا الاعتقاد فهی عبارة‘‘[1] یعنی یہ اعتقاد اور شعور کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں باختیار خود تصرف کرنے میں ہمارے معبود کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے۔ اور اسی اعتقاد کے تحت اپنے معبود کو پکارا جائے، اس کی حمد وثناء کی جائے، رکوع وسجود یا نذرونیاز سے اس کی تعظیم بجا لائی جائے تو یہ سب کچھ عبادت ہے، تو یہ عبادت بجمیع اقسامہ وانواعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہاں عبادت سے، دعا، اور پکار مراد ہے۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا ارشاد ہے کہ الدعاءهی العبادة[2]یعنی دعاء ہی اصل عبادت ہے۔ اور دعویٰ توحید اعبدوا ربکم میں حصر اور تخصیص مراد ہے۔ یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، صرف اسی کو پکارو۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای افردوا الطاعة والعبادة لربکم دون سائر خلقه[3] یعنی طاعت اور عبادت صرف اپنے رب ہی کی کرو اور اس کی مخلوق کو اس کی طاعت اور عبادت میں شریک نہ بناؤ۔ عبادت سے وہی دعا اور پکار مراد ہے۔ اور حصر کا دوسرا قینہ وہ نتیجہ ہے جو دعوی توحید کے عقلی دلائل کے بعد مذکور ہے یعنی فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا۔۔۔۔ اَلَّذِیْ اب یہاں سے دعویٰ مذکور پر عقلی دلائل کی ابتداء ہوتی ہے۔ الموصول صفة مادحة للرب وفیها ایضا تعلیل العبادة او الربوبیة علی ما قیل[4] یہاں دعوی توحید پر جو عقلی دلیل پیش کی گئی ہے وہ پانچ امور پر مشتمل ہے۔ اول۔ خَلَقَکُم۔ یعنی تمہیں پیدا کیا اور نعمت وجود سے سرفراز فرمایا۔ دوم وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ تمہارے آباء واجداد، دوسرے تمام انسانوں، فرشتوں اور جنوں کا بھی وہی خالق ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ کیونکہ توحید کی پابندی ہی سے تقویٰ حاصل ہوسکتا ہے۔ لَعَلَّ شک اور امید کیلئے موضوع ہے مگر جب اللہ کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ قال سیبویه لعل وعسی حرفا ترج وهما من اللّٰه واجب[5]سوم مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کر کے اس سے تمہارے لیے روزی پیدا کی۔[6]
Flag Counter