نقصان کا ارتکاب کرلینا جائز ہے، تاکہ بڑے کے شر سے محفوظ رہا جاسکے۔[1] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ یہی اقدام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصلحت و مفاد میں ہے، آپ نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون خاطر نصیب ہوجائے۔[2] آپ رضی اللہ عنہ نے نہ ان کے اخلاق پر حملہ کیا نہ ان کی طرف کسی برائی کی نسبت کی۔[3] بلکہ آپ کی رائے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں بہتر تھی، آپ نے یہی کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول! اگر آپ اس الجھن و مصیبت سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو ان کے علاوہ دوسری بہت سی عورتیں ہیں اور اگر حقیقت تک رسائی مطلوب ہے تو باندی (بریرہ) سے پوچھ لیجئے، وہ آپ کو حقیقت بتا دے گی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کیسی ہیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان کیا اور بتایاکہ جو شخص ظلم و جھوٹ کے سہارے عزت رسول پر بٹہ لگانا چاہے گا اس کا انجام بہت برا ہے، علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما دونوں کی مشاورت اپنی اپنی جگہ بہتر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں تھی اوراس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کی پاک دامنی پر مزید قناعت حاصل ہوئی۔[4] معزز قارئین کے لیے ضروری ہے کہ اس مقام پر ان باطل اور غیر معتبر روایات سے خبردار رہیں، جن میں واقعہ افک کے حوالہ سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے تئیں بدسلوک ثابت کیا گیا ہے اورانھی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے علی ابراہیم حسن نے ’’التاریخ الاسلامی العام‘‘ میں طہٰ حسین نے ’’علی و بنوہ‘‘[5]میں او ران جیسے دیگر بزعم خویش محقق کہلوانے والوں نے یہ لکھ مارا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض رہنے لگیں، ان کا برتاؤ حاسدانہ ہوگیا، انھیں قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی سازش میں ملوث ہونے کی تہمت لگانے لگیں اور ان کے خلاف بغاوت کرکے مسلمانوں کو بھڑکانے لگیں۔ میں آئندہ صفحات میں جہاں جنگ جمل کا ذکر کروں گا وہاں ان شاء اللہ آپ کو بتاؤں گا کہ علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما کے درمیان الحمد للہ خوشگوار تعلقات تھے۔ دشمنانِ اسلام کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ہے واقعۂ افک بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی اور مومن بندوں پر خاص احسان رہا ہے کہ اس نے اس حادثہ کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا اور اس کے سراسر جھوٹ ہونے کو واضح کردیا، پھر اس تہمت و افترا پردازی سے متعلق مومنوں کے نظریات و مواقف کو صحیح روایات کی روشنی میں تاریخ میں جگہ ملی، ان صحابہ کا یہ موقف اپنے بعد کے مسلمانوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ انھیں بھی اس قسم کے پروپیگنڈوں اور افتراپردازیوں کا سامنا کرناپڑے تو وہ اس سے کس طرح نمٹیں، کیونکہ اب وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ نئی نسلوں کے لیے دروس و عبرت و مواعظ باقی بچے ہیں۔[6] میں نے سیرت نبوی کے موضوع پر اپنی کتاب میں حادثۂ افک سے مستنبط ہونے والے دروس، مواعظ، آداب اوراحکامات کو نہایت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔[7] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |