Maktaba Wahhabi

952 - 1201
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ (الانعام: 38) ’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔‘‘ پس اگر مسئلہ امامت اتنا اہم تھا اور آج بھی ہے، تو ایک انسان اس عقیدہ کے بارے میں پوچھ سکتا ہے کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین کتاب یعنی قرآن مجید، جس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا بار بار ذکر آیا ہے لیکن ائمہ اثنا عشرہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسئلہ امامت سے متعلق کہیں کوئی ذکر کیوں نہیں؟؟ حالانکہ روافض شیعہ کے عقیدہ کے مطابق یہ مسئلہ دین کے عظیم ترین ارکان میں سے ایک تھا۔ کیا یہ حیرت و تعجب کی بات نہیں ہے کہ قرآن کریم وضو کے طریقہ پر تفصیل سے روشنی ڈالے، کھانے پینے کی چیزوں میں حلال وحرام کی نوعتیں واضح کرے، کبھی صلح اور کبھی جہاد پر گفتگو کرے، اخلاقیات کو مختلف اعتبار سے موضوع بحث بنائے اور بارہ اماموں کا مسئلہ امامت جس کی اہمیت آل کاشف الغطاء کی نگاہ میں یہ ہو کہ ’’یہ بھی نبوت کی طرح ایک منصب الٰہی ہے‘‘، اسے نظر انداز کردے؟ یقینا یہ بہت حیرت انگیز بات ہے، کیا قرآن کی مذکورہ دونوں آیات پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ نہیں بتاتیں کہ بشری ضرورت کی کسی بھی چیز اور مسئلہ کو قرآن نے نظر انداز نہیں کیا ہے، پھر بھلا منصوص مسئلہ امامت کو قرآن کیوں نظر انداز کرے گا کہ علمائے شیعہ اپنی حسب منشا اس کا مفہوم متعین کریں، جب کہ ائمہ کی تنصیص و تعیین ان کے نزدیک اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ان کی اپنی طرف سے نہیں۔[1] روافض شیعہ کے نزدیک عصمت ائمہ عصمت امام کا عقیدہ روافض شیعہ کے نزدیک امامت کے لیے بنیادی شرط ہے اور ان کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ روافض شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں لامحدود اختیارات، اوصاف اور صلاحیتوں کا عقیدہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں مانتے وہ جو کچھ بھی کرے معصوم عن الخطا ہوتا ہے، بلکہ اس سے متعلق یہ عقیدہ رکھنا واجب قرار دیتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کہے اس کی تصدیق اور جو کچھ کرے اس کے خیر ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے کسی قول و عمل میں برائی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ ایسے علم غیب کا مالک ہوتا ہے جس کی معرفت اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی۔انھی اسباب و وجوہات کی بنا پر روافض نے اپنے اماموں کے لیے عصمت کا عقیدہ گھڑا، اور کہنے لگے کہ ائمہ اپنی پوری زندگی میں معصوم عن الخطا ہیں، نہ وہ گناہ صغیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں نہ کبیرہ کا۔ ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا نہ ان سے کوئی بھول چوک ہوتی ہے۔[2] چنانچہ روافض کے علامہ مفید اس بات پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ احکام کی تنفیذ، اقامت حدود، حفظ شرائع اور مخلوقات کی تعلیم و تربیت میں ائمۂ کرام انبیاء کے قائم مقام ہیں، وہ انبیاء کی طرح معصوم ہیں، ان سے
Flag Counter