Maktaba Wahhabi

953 - 1201
کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا ارتکاب نہیں ہوتا، ان سے متعلق دین کے بارے میں کسی سہو یا نسیان کا تصور نہیں کیا جاسکتا، چند ایک کو چھوڑ کر بقیہ تمام امامیہ شیعہ کا یہی عقیدہ ہے۔ جن لوگوں نے اس سلسلہ میں شذوذ کا راستہ اختیار بھی کیا ہے انھوں نے روایات کے ظاہری الفاظ پر اعتماد کیا ہے حالانکہ ان کی تاویلات موجود ہیں جو ان کے فاسد ذہن میں نہیں آتیں۔[1] ابن المطہر الحلی کہتا ہے: ’’ائمہ کے بارے میں تمام مسلم فرقوں کے برخلاف امامیہ اور اسماعیلیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کا معصوم ہونا واجب ہے۔‘‘[2] جب کہ علامہ مجلسی کا کہنا ہے: ’’معلوم ہونا چاہیے کہ امامیہ حضرات ائمہ کرام کی کامل عصمت پر متفق ہیں، چنانچہ ان سے کوئی بھی گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، لغزش ہو یا تاویل کی غلطی، قطعاً سرزد نہیں ہوتی…۔‘‘ [3] ایک رافضی عالم صدوق اپنی من گھڑت و جھوٹی سند کے حوالہ سے ابن عباس سے نقل کرتاہے کہ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میں، علی، حسن، حسین اور حسین کی اولاد سے نو لوگ معصوم ہیں۔‘‘[4] ایک مقام پر اسی کو ثابت کرتے ہوئے یوں لکھتا ہے: ’’انبیائے کرام، رسل اور ائمہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ سب معصوم عن الخطا ہیں، ہر گندگی و گناہ سے پاک و صاف ہیں، ان سے کوئی چھوٹے بڑے گناہ سرزد نہیں ہوتے، حکم الٰہی کی کبھی نافرمانی نہیں کرتے، جس بات کا اللہ انھیں حکم دیتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں، جس نے ان کی عصمت کی تردید کی وہ ان کی حقیقت شناسی سے ناواقف رہا اورجو اس سے ناواقف رہا وہ کافر ہے۔‘‘[5] حقیقت یہ ہے کہ عصمت ائمہ کا یہ عقیدہ فقط ماضی کے روافض تک محدود نہیں، بلکہ موجودہ دور کے روافض بھی اس سے مکمل طور سے متفق ہیں، چنانچہ محمد رضا المظفر کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ امام نبی کی طرح ہیں، بچپن سے لے کر موت تک قصداً یا سہواً ہر طرح کے ظاہری و باطنی فواحش اور رذائل سے ان کا پاک اور معصوم ہونا واجب ہے، اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ وہ ہر طرح کے سہو، خطا اور بھول چوک سے پرے ہیں۔[6] زنجانی نے ’’عقائد الامامیہ‘‘[7]میں علی البحرانی نے ’’منار الہدیٰ‘‘ میں[8] اور سید مرتضیٰ عسکری نے ’’معالم المدرستین‘‘[9]میں بصراحت یہی عبارت تحریر کی ہیں۔
Flag Counter