مگر شیعہ امامیہ مسلک میں کچھ ایسے آثار و روایات ملتی ہیں جو ان کے مذکورہ عقیدہ کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک ممتاز عالم مجلسی اس مسئلہ میں حیرت زدہ نظر آتے ہیں اور مذکورہ عبارتوں کو اجماع شیعہ کے خلاف مانتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ بے حد پیچیدہ ہے، کیونکہ متعدد آیات و روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان (ائمہ) سے بھی سہو (لغزش و بھول چوک) ممکن ہے، چند ایک کو چھوڑ کر بقیہ اصحاب مذہب کا اسی پر اتفاق ہے۔[1] گویا یہ مجلسی جیسے جید شیعہ عالم کا اعتراف ہے کہ مطلقاً عصمت ائمہ پر متاخرین شیعہ کا اجماع ان کی سابقہ روایات کے خلاف ہے اوریہ اس بات کی قطعی دلیل اور صریح اعتراف ہے کہ یہ لوگ بلا کسی دلیل کے حتیٰ کہ اپنی کتب کے دلائل سے بھی خالی، گمراہی پر متفق ہوسکتے ہیں۔[2] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عصمت ائمہ کا نظریہ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ یا اس نظریہ کی تحدید و اثبات کے آغاز میں شیعی عقائد مختلف رہے ہیں، مثلاً ابوجعفر بن بابویہ القمی متوفیٰ 381ھ اور ان کے استاد محمد بن حسن قمی کے دور میں جمہور شیعہ کا خیال تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے سہو و نسیان کا انکار انتہائی درجہ کا غلو ہے۔[3] یہی وجہ تھی کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے سہو یا نسیان کی نفی کرتا اسے یہ لوگ غالی (متعصب) شیعہ میں شمار کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد حالت بدل گئی اور ائمہ سے سہو و نسیان کی نفی کرکے انھیں اس لافانی ہستی کے مقام تک پہنچا دیا گیا جسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ عصمت ائمہ کا یہ مبالغہ آمیز عقیدہ کوفہ کی ایک نامعلوم شیعہ جماعت کے یہاں رائج تھا، جیسا کہ مجلسی لکھتے ہیں: ’’شیعوں کے آٹھویں امام، امام رضا سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سہونہیں ہوئی تھی؟ ان کے بارے میں اپ کیا فرماتے ہیں؟ امام رضا نے فرمایا: وہ جھوٹے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو، جس ہستی سے سہو نہیں ہوسکتا وہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں۔‘‘[4] مجلسی جیسے مستند عالم کی یہ تحریر اس بات کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے سہو و نسیان کا انکار چند مجہول و غیر معتبر لوگوں کا عقیدہ تھا، یہ لوگ مذکورہ عقیدہ رکھنے میں تنہا تھا، یہ لوگ ائمہ میں سب سے افضل امام یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو و نسیان کی نفی تو کرتے تھے، لیکن دیگر ائمہ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ نہ تھا، پھر اس عقیدہ میں مزید توسیع و ترقی ہوئی تاکہ بارہ (12) معہود شیعہ اماموں اور تمام امامیہ شیعہ کو اس عقیدہ میں شامل کیا جاسکے، چنانچہ آپ معاصر شیعی عالم آیت اللہ العظمی عبداللہ الممقانی کے کلام پر غور کریں، جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ائمہ سے سہو و نسیان کی نفی کرنا شیعی مذہب کے واجبی مسائل میں شامل ہو چکا ہے۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |