یہ حضرت اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ان کے اسلاف علماء اس عقیدہ کو مبنی بر غلو تصور کرتے تھے، بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کل گزشتہ جو بات غلو شمار کی جاتی تھی آج اسے شیعہ مذہب کا لازمی عنصر بننا ضروری ہوگیا ہے۔[1] چونکہ عصمت ائمہ کا دعویٰ، ائمہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مساوی قرار دینے کے مترادف ہے اور ان سے سہو و نسیان کی نفی انھیں درجہ الوہیت تک پہنچا دیتا ہے جیسا کہ آٹھویں شیعہ امام علی رضا نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اس لیے ابن بابویہ القمی وغیرہ نے اس عقیدہ کو متعصب و غالی اور غیر متعصب شیعوں کے درمیان حد فاصل قرار دیا ہے۔[2] جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ معاصر شیعی عالم ممقانی کے بقول ائمہ شیعہ سے سہو و نسیان کی نفی کرنا اس مذہب کا لازمی عنصر بن چکا ہے اور اس مذہب کے کسی بھی لازمی عنصر کا انکار کرنا کفر ہے، جیسا کہ موجودہ دور کے ایک دوسرے شیعہ عالم ’’محسن الامین‘‘ کا کہنا ہے۔[3] تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ متاخرین شیعہ متقدمین کی اور متقدمین شیعہ متاخرین کی تکفیر کرتے ہیں۔ ایک طرف تو عبداللہ الممقانی کا یہ خیال کہ ائمہ شیعہ سے سہو و نسیان کی نفی کرنا شیعہ مذہب کا لازمی عنصر بن چکا ہے اور دیگر بعض شیعہ حضرات اس پر اجماع نقل کرتے ہیں۔[4] جب کہ دوسری طرف سنی ممالک میں نشر ہونے والی دیگر شیعہ کتب میں ان کی یہ تصریحات ملتی ہیں کہ ائمہ کے بارے میں سہو و نسیان کا عقیدہ رکھنا تمام شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے۔[5] اس طرح سے یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں، اور باہم متضاد عقیدہ کے شکار ہیں۔ اوران کا ہر فریق اس بات کا دعویدار ہے کہ اسی کی بات شیعہ مذہب کا حصہ ہے۔[6] آگے چل کر ’’عصمت ائمہ‘‘ کا عقیدہ ہی عقیدہ ’’بدا‘‘، و ’’تقیہ‘‘ کا سبب بنا، (جس پر تفصیلی گفتگو آئندہ صفحات میں ہوگی)۔ مختصر یہ کہ جب ائمہ کے حالات و سوانح کسی بھی صورت میں شیعوں کے دعوائے عصمت سے متفق نظر نہ آئے اور ان کے اقوال و خیالات میں تضاد پیدا ہوگیا، تو انھوں نے کہا کہ اس واقعہ کا تعلق ’’بدا‘‘ سے ہے اور اس واقعہ کا تعلق ’’تقیہ‘‘ سے ہے، جیسا کہ بعض شیعہ حضرات نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔[7] اپنے بارہ اماموں کے بارے میں شیعہ حضرات کے دعوائے عصمت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ ان کے ہر قول و عمل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی طرح مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر مراجع احادیث کی اسناد کسی ایک امام تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتیں۔ قرآن، سنت اوراجماع کی صراحت دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اپنے ائمہ کے بارے میں ان حضرات نے جس عصمت کا دعویٰ کیا ہے وہ اللہ کے انبیاء اور رسولوں تک کو حاصل نہیں رہا۔[8] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |