Maktaba Wahhabi

273 - 1201
سے ہوا تھا۔[1] یہ بات صحیح احادیث سے ثابت اور مشہور ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔[2] شیعی روایات نے دونوں حضرات میں سسرالی رشتہ کے حوالہ سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر جانب داری کی تہمت تو لگادی لیکن اس مسلمہ حقیقت کو بھلا دیا کہ نسب وخاندان کا رشتہ، سسرالی رشتہ سے کہیں زیاد ہ قوی اور بااثر ہوتاہے، نیز اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ دور اوّل کے مسلمانوں کے تعلقات کا مزاج کیا تھا؟ وہ بھول گئے کہ ان کے تعلقات کی بنیادیں خاندانی یا سسرالی قرابت داریاں نہ تھیں، بلکہ اسلامی اخوت تھی اور عبدالرحمن بن عوف اور عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان سسرالی رشتہ کی نوعیت بس اتنا تھی کہ ولید کی بہن ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔[3] 2۔ اموی پارٹی اور ہاشمی پارٹی: ابومخنف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت کے دوران بنو ہاشم اور نبو امیہ کے درمیان بڑی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حالانکہ یہ بات قطعاً درست نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حتٰی کہ ضعیف روایت میں یہ وارد ہے۔[4] افسوس کی بات ہے کہ سند و متن ہر اعتبار سے ان رافضی شیعی روایات کے بطلان اور ان کے برخلاف صحیح روایات کے ثبوت کے باوجود بعض مؤرخین اپنے بعض اعتراض و مقاصد کے پیش نظر ان شیعی روایات کے پیچھے دوڑ پڑے اور اپنے غلط تخیل و تجزیہ کی بنیاد ان روایات پر رکھی اور یہ تاثر دیا کہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے صحابہ کرام کی ترجیحات اور مشورے میں خاندانی وقبائلی رنگ غالب تھا۔ وہ دو پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک اموی پارٹی اور دوسری ہاشمی پارٹی۔ حالانکہ یہ ایک وہمی تصور اور مردود استنتاج ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس ماحول و مزاج سے ہرگز میل نہیں کھاتی جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے جس کا طرۂ امتیاز یہ تھا محض اسلام کی خاطر مہاجرین و انصار اپنے باپ، بھائی اور خاندان کے خلاف شانہ بہ شانہ کھڑے ہوجاتے تھے، یہ بات ان کے ذہن و دماغ میں بھی نہ آئی ہوگی، اور کیونکر آتی، جب کہ وہ سارا مال ومتاع اپنے دین کی حفاظت کے لیے قربان کردیے تھے اور نہ ہی یہ تصور ان چیدہ وچنیدہ جنت کی بشارت یاب شخصیات کی صحیح معرفت سے میل کھاتا ہے، جن کی زندگی کے بہت سارے واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ لوگ اپنے پیچیدہ ومشکل ترین مسائل کو حل کرنے کے لیے اس تنگ نظری سے کہیں زیادہ بڑھ کرسوچتے اور عمل کرتے تھے۔ پس یہ واقعہ کسی خاندانی یا قبائلی انتخاب کی طرح اپنے اپنے قبیلہ کی نمائندگی کا ہرگز نہیں تھا، بلکہ اسلام میں بلند رتبہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شوریٰ کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق قرار پائے تھے ۔[5]
Flag Counter