کا راستہ ڈھونڈھتے رہے، اس امید میں کہ شاید اب بھی کوئی چیز میرے اور خلافت کے درمیان حائل ہوجائے اور میں اس فرض منصبی سے بچ جاؤں، لیکن آخر میں مجبور ہو کر آپ کو عہدۂ خلافت قبول ہی کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے صحابہ کرام کا یہ اصرار و مطالبہ کسی وصیت نبوی پر قائم نہ تھا، اس لیے کہ اگر ایسی بات ہوتی تو انھیں منصب خلافت پر بٹھانے میں صحابہ کرام قطعاً کوئی تردد نہ کرتے، اسی طرح اصرار و مطالبہ کی بنیاد بھی نہ تھی کہ آپ کا تعلق قبیلۂ عبدمناف سے تھا، یا کہ کم از کم آپ قریش کے فرد تھے، بلکہ اس مطالبہ و اصرار کی بنیاد صرف یہ بات تھی کہ آپ اسلام میں سبقت کرنے والوں میں سے تھے، عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور اس لیے بھی آپ کو ترجیح دی جارہی تھی کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شوریٰ کے منتخب کردہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد دوسرے فرد تھے۔ چنانچہ اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کوئی کہتا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عثمان ہی کو خلیفہ بنانا زیادہ بہتر ہے، تو آپ اس سے یہ ضرور پوچھتے کہ اگر عثمان بھی موجود نہ ہوں تب کسے پسند کرتے ہو؟ وہ جواب دیتا: علی رضی اللہ عنہ کو۔[1] 2۔ امیرالمومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور کے اہل حل و عقد: ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے استخلاف کے وقت عشرہ مبشرہ کے باحیات لوگ اور اوس و خزرج کے اہم سرداران ہی اہل حل و عقد ہوتے تھے اور یہ سب اہل مدینہ میں سے تھے، انھیں یہ امتیازی شان اس لیے حاصل تھی کہ یہ لوگ سابقین اوّلین میں سے تھے اور علم وایمان میں کامل و راسخ تھے۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ انتخاب خلیفہ کا اختیار بروقت مدینہ میں رہنے والے انصار ومہاجرین، بدری صحابہ کے اہل حل و عقد اور اصحاب شوریٰ کا حق ہے، جب کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے جدید حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے، یہ بات اس وقت واضح شکل میں سامنے آئی جب حسن اور ان کے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے درمیان معمولی تکرار ہوئی۔ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ کو پہلے ہی روکا، لیکن آپ نہیں مانے، وہ دن دور نہیں لگتا جب آپ نہایت بے توجہی سے مار ڈالے جاؤ گے، اور کوئی آپ کا مددگار نہ ہوگا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیوں برابر پیچھے پڑے رہتے ہو، تو نے کون سی بات کہی اور میں نے نہیں مانا؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: جس دن عثمان رضی اللہ عنہ دشمنوں کے نرغہ میں اپنے گھر میں محصور تھے تو میں نے آپ سے کہا کہ مدینہ سے باہر نکل جائیے تاکہ ان کے قتل کے وقت آپ مدینہ میں نہ رہیں لیکن آپ نہیں مانے، پھر جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو میں نے آپ سے کہا کہ جب تک تمام اسلامی شہروں کے وفود نہ آجائیں اور سب بیعت کے لیے راضی نہ ہوجائیں تب تک بیعت خلافت نہ قبول کیجیے، لیکن آپ نہیں مانے۔[3] علی رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:…اور تمھاری دوسری بات کی حقیقت یہ ہے کہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |