ملاقات ہوگئی، آپ کے ساتھ متعدد صحابہ بھی تھے، آپ نے مجھے آواز دی اور کہا: ’’أَخُ أَخُ‘‘ یعنی اونٹ کو بٹھانے لگے تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیں، لیکن مجھے مردوں کے درمیان چلنے سے شرم محسوس ہوئی، معاً زبیر اوران کی غیرت بھی یاد آگئی، وہ بہت ہی غیرت مند انسان تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ میں مردوں کے درمیان چلنے میں شرما رہی ہوں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، جب میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے راستہ میں ملے تھے اور میرے سر پر گٹھلیاں تھیں، آپ کے ساتھ چند صحابہ بھی تھے، آپ نے اپنا اونٹ بٹھایا تاکہ مجھے اس پر سوار کرلیں، لیکن مجھے حیاء آگئی اور آپ کی غیرت ذہن میں گردش کرنے لگی، اس وقت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! تمھارا گٹھلیوں کا بوجھ اٹھانا میرے لیے اس بات سے زیادہ گراں ہے کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوجاتیں۔ اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک خادم بھیج دیا، اور وہ گھوڑے کی مکمل دیکھ بھال اور پرورش کرنے لگا، گویا انھوں (ابوبکر صدیق) نے مجھے آزاد کردیا۔[1] 9۔زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کے نام شہداء صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام پر رکھتے ہیں: آپ کو اللہ کی راہ شہادت اس قدر محبوب تھی کہ اپنے بچوں کے نام ان صحابہ کے نام پر رکھتے تھے، جنھوں نے اللہ کے راستہ میں شہادت پائی تھی، چنانچہ ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: طلحہ اپنے بچوں کا نام انبیاء کے نام پر رکھتے ہیں، حالانکہ انھیں معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، میں اپنے بچوں کا نام شہداء کے نام پر رکھتا ہوں، تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں شہادت سے سرفراز کرے۔ عبداللہ، عبداللہ بن جحش کے نام پر، منذر، منذر بن عمرو کے نام پر، عروہ، عروہ بن مسعود کے نام پر، حمزہ، حمزہ بن عبدالمطلب کے نام پر، جعفر، جعفر بن ابی طالب کے نام پر، مصعب، مصعب بن عمیر کے نام پر، عبیدہ، عبیدہ بن الحارث کے نام پر، خالد، خالد بن سعید کے نام پر اور عمرو، عمرو بن سعید بن عاص کے نام پر جو کہ یرموک میں شہید ہوئے۔[2] 10۔زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نیکیوں کو چھپانے کی تلقین کرتے ہیں: آپ فرماتے ہیں: تم میں سے جو بھی عمل صالح کو چھپا کر رکھ سکے وہ اسے چھپائے رکھے۔[3] 11۔زبیر رضی اللہ عنہ کی مدح و منقبت میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا شاعرانہ تخیل: ایک مرتبہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ حسان رضی اللہ عنہ ان لوگوں کو اپنا شعر سنا رہے ہیں، لیکن سامعین دلچسپی نہیں لے رہے ہیں، زبیر رضی اللہ عنہ صحابہ کے ساتھ بیٹھ گئے اور کہا: کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ ابن الضریعہ (حسان بن ثابت) کے کلام پرکان نہیں دھرتے ہو، جب وہ اللہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |