Maktaba Wahhabi

514 - 1201
مراد سے مطابق سمجھیں گے، یہ بالکل واضح بات ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام لوگ اپنی زندگی میں اور علم حاصل کرنے والے حصول علم کے میدان میں ایسے ہی علماء سے سیکھتے اور پڑھتے ہیں جو علم میں سب سے بہتر ہوتے ہیں، مسائل کو اچھی طرح سمجھتے اور سمجھاتے ہیں، کتنے ہی ایسے شاگرد ملیں گے جن کی بلندی کا ستارہ چمکنے اور علمی قد بلندی میں اللہ کے فضل کے بعد معلّم کی حسن تعلیم کا اثر ہے۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحیثیت معلم ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی شخص آپ کے حسن تعلیم کا دسواں حصہ تو کیا اس سے کم بھی نہیں پاسکتا۔ معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن تعلیم کے بارے میں یہی گواہی دی ہے، فرماتے ہیں: ’’ان پر میرے ماں باپ قربان جائیں آپ سے پہلے اور آپ کے بعد میں نے آپ جیسا بہتر تعلیم دینے والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘[1] رحمۃ اللہ علیہ یقین کي بلندي: انھوں نے جو کچھ بزبان رسالت سنا اور سمجھا اس پر کامل یقین کیا، لہٰذا ان کے علوم یقینی ہیں اور جو علوم ان کے بعد کے ہیں ان کے بیشتر احوال میں ظن ہو سکتا ہے۔ نزول احکام کے اسباب کي معرفت: قرآنی آیات کے اسباب نزول، احادیث نبویہ کے اسباب ورود اور ناسخ و منسوخ کی معرفت انھیں شرعی مراد تک پہنچانے اور مقاصد شرع سے آگاہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی رہی ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ افعال نبوي کا عیني مشاہدہ: افعال نبوی کے عینی مشاہدہ سے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی صحیح تشریح، قرآنی آیات اور ان کے شرعی مراد و مطالب کی توضیح و تفسیر میسر آتی رہی ہے۔ مشکل مسائل کا استفسار: مشکل مسائل کے بارے میں استفسار کرنا اور ان کے جواب پانا ان لوگوں کے لیے آسان رہا۔ 2۔ عربی سلیقہ و ثقافت: انھوں نے قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی سلیقہ و ثقافت کی وجہ سے اچھی طرح سمجھا اور عربی الفاظ کے معانی و دلالت کو مکمل طور سے پہچانا ان کے بعد کے ادوار میں عربی زبان کے رموز کو پہچاننے کے لیے جن لغوی اور اصولی قواعد کی ضرورت پیش آئی وہ ان قواعد کے محتاج نہ تھے۔ 3۔ اخلاص و تقویٰ: اپنے اخلاص و تقویٰ کی بدولت وہ لوگ نہایت مختصر مدت میں بہت سے نفع بخش علوم کے مالک بن گئے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ ۗ (البقرۃ:282)
Flag Counter