’’اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اللہ تمھیں علم دے رہا ہے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ مذکورہ تمام اسباب نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک مکمل اور قوی ترین دینی فقہ و بصیرت کی شکل اختیار کرلی، چنانچہ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن چیزوں میں ہمیں ان صحابہ سے مشارکت ہے مثلاًدلالتِ الفاظ اور قیاسات، تو اس میں گرچہ ہمیں بھی حصہ ملا ہے لیکن وہ پاک دل تھے، وافر علم والے اور کم تر تکلف والے تھے، ان کے ساتھ اللہ کی مدد تھی، ان کے ذہن قدرت نے کھول رکھے تھے، ان کے سینے صاف تھے، انھیں نور نبوت سے حصہ ملا تھا، ان کی زبانیں حق و صداقت والی تھیں، استاد کامل نصیب ہوا تھا، ان کی عقل تیز تھی، ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ تھی، ان کے مقصد نیک تھے، ان کی رگ رگ خوف الٰہی میں پھڑکتی رہتی تھی، عربیت ان کی طبیعت تھی، معانی و مطالب ان کا حصہ تھے، فطرت و عقل پر پالش اللہ کی طرف سے تھی، سند، حال راوی، علتِ حدیث، جرح و تعدیل، قواعد و اصول سب ہمارے لیے ہیں، ان کے لیے نہ تھے، ان کے سامنے صرف دو ہی چیزیں تھیں: (1)… اللہ نے فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (2)… اور ان فرمودات کے معانی یہ ہیں۔ بس وہی لوگ سب امت سے زیادہ اس خزانہ کے مالک تھے، یہی چیز ان کے سامنے تھی او ران کی بھی تمام تر توجہ اسی کی طرف تھی، لیکن ان کے بعد جو آئے ان کی صلاحتیں مختلف النوع ہوگئیں، ان کی ہمتیں ادھر ادھر بٹ گئیں، ایک طرف انھیں زبان سیکھنا پڑتی ہے، دوسری جانب قواعد، علمِ اسناد اور علمِ احوال رواۃ سیکھنا پڑتا ہے۔ مصنّفین کے کلام میں غور و خوض کرنا پڑتا ہے، اپنے مختلف اور بہت سے جداگانہ خیالات والے اساتذہ کے بارے میں انھیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے، پھر بہت سی دقتوں اوربہت زیادہ تکالیف کے بعد احادیث رسول تک ان کی رسائی ہوتی ہے، بہرصورت اگر وہ وہاں تک پہنچتا بھی ہے تو تھکا ہارا، ماندہ و درماندہ، نچوڑا ہوا اور بے طاقت، اب جتنی قوت باقی رہی ہے زیادہ سے زیادہ اس کا کوئی ہی حصہ صرف کرسکتاہے۔[1] مذکورہ اقتباس ثابت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ساتھیوں کے لیے وہ اسباب مہیا کیے جو ان کے فہم و علم کے لیے معاون ثابت ہوئے اور انھیں دینی فہم وعلم میں دقیق رسی کا ملکہ حاصل ہوا، چنانچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دوسروں کے بالمقابل وہ لوگ مقاصدِ شریعت سے زیادہ واقف تھے اور مقاصد شریعت کے حصول کے اہم ترین وسائل یعنی قرآن اور سنت اور ان کے طرق استنباط سے مکمل طور سے بہرہ ور تھے۔[2] امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام مقاصد قرآن کی معرفت میں سب پر فائق تھے۔[3] اور فرمایا: شریعت کو سمجھنے اور اس کے مقاصد تک رسائی حاصل کرنے میں صحابہ ہی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔[4] صحابہ اور ان کے علمی مقام و مرتبہ پر ان چند تمہیدی کلمات کے بعد معلوم ہونا چاہیے کہ قول صحابی کی حجیت کے بارے میں علماء کے پانچ اقوال مشہور ہیں، لیکن ان اقوال کو ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ محلِ نزاع کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |