Maktaba Wahhabi

516 - 1201
تحریر کردیا جائے: 1: تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اجتہادی مسائل میں کسی ایک صحابی کا قول دیگر متعدد صحابہ پر حجت نہ ہوگا۔ خواہ وہ حاکم ہو، امام ہو، یا مفتی۔ 2: اگر کسی مسئلہ میں کوئی ایک صحابی ایک رائے قائم کرے اور دیگر صحابہ اس کی تائید کریں تو وہ اجماعی مسئلہ ہو جائے گا، درپیش محل نزاع میں یہ صورت شامل نہیں ہے۔ 3: اگر کسی مسئلہ میں ایک صحابی نے کوئی فتویٰ دیا اور وہ عام ہوگیا، لیکن کسی نے اس فتویٰ کی مخالفت نہ کی، تو اس صورت کو اجماعِ سکوتی کا حکم حاصل ہے۔ 4: اس بات پر تمام مسالک متفق ہیں کہ اگر کسی صحابی کے قول کی مخالفت کوئی دوسرا صحابی کرے تو وہ قول حجت نہیں ہے۔ 5: اگر قولِ صحابی کی بنیاد قرآن، سنت یا اجماع ہے، تو ایسی صورت میں حجت قول صحابی نہیں بلکہ وہ بنیاد ہے۔ 6: اگر کسی صحابی نے کوئی فتویٰ دیا ہو، پھر اس سے رجوع کرلے تو وہ حجت نہیں ہے۔ محل نزاع یہ بات ہے کہ کوئی صحابی کسی اجتہادی اور تکلیفی مسئلہ میں کوئی فتویٰ دے اور اس کا کوئی موافق یا مخالف ظاہر نہ ہو، نہ ہی اس کی شہرت اور عدم شہرت کا علم ہو اور نہ ہی یہ معلوم ہو کہ کسی نے اس کی مخالفت کی ہے یا نہیں۔[1] پس اس مسئلہ میں علماء کے پانچ مشہور اقوال ہیں: ٭ پہلا قول:… قول صحابی حجت ہے، امام مالک، شافعی کا قدیم قول اور احمد کی ایک روایت یہی ہے، اکثر اصولیوں، فقہائے احناف اور حنابلہ میں سے ابن عقیل اور علائی،[2] اور شافعیہ میں سے خطیب بغدادی کا یہی مسلک ہے۔ امام ابن القیم نے اعلام الموقعین میں، شاطبی نے الموافقات میں اور ابن تیمیہ نے فتاویٰ میں اسی کو پسند کیا ہے۔[3] ٭ دوسرا قول:… قول صحابی حجت نہیں ہے۔ امام شافعی کے دو اقوال میں سے ایک یہی ہے، آمدی، رازی، غزالی اور احمد کی ایک روایت بھی اسی کی تائید میں ہے۔[4] ٭ تیسرا قول:… اگر اجتہادی مسئلہ نہیں ہے تو حجت ہے، ورنہ نہیں۔ فقہا ئے احناف کی ایک جماعت اسی بات کی قائل ہے۔[5] ٭ چوتھا قول:… ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا قول حجت ہے، دوسروں کا نہیں۔[6] ٭ پانچواں قول:… خلفائے اربعہ یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کا قول حجت ہے دوسروں کا نہیں۔[7] مذکورہ اقوال میں پہلا قول ہی راجح ہے اور اس کے دلائل یہ ہیں۔
Flag Counter