تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ امیر المومنین عثمان بن عفان میں جمع کیا ہے۔[1] 2۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کی بات میں تحریف: رافضی روایات میں ہے کہ ’’قیس بن سعد رضی اللہ عنہما نے منبر پر کہا: اے لوگو! اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے جسے سب سے بہتر سمجھا اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔‘‘ یہ بات قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرنا سراسر غلط ہے، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ پر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے۔ خود علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح اپنے اوپر ان دونوں کی افضلیت صراحت سے ثابت ہے، اس مسئلہ میں کسی صحابی کو کبھی کوئی تردد نہیں رہا، ہاں اس کے خلاف عقیدہ کو اگر کسی نے اختیار کیا تو وہ متاخرین روافض ہیں، لہٰذا مذکورہ قول قیس بن سعد رضی اللہ عنہما یا دیگر کسی صحابی یا تابعی کی طرف منسوب کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔[2] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام متقدمین شیعہ علی رضی اللہ عنہ پر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت سے متفق ہیں[3] اور علی رضی اللہ عنہ پر ابوبکر و عمر کی افضلیت کے بارے میں بہت سی روایات ہیں، انھیں میں سے ایک ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ہم عصر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کے درمیان ترجیحی موازانہ کرتے تھے، چنانچہ ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم کو ترجیح دیتے تھے۔[4] اس طرح کی اور بھی بے شمار روایات ہیں[5] اور حقیقت واقعہ جیسا کہ گزر چکا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کو کسی طرح بھی قتل عثمان میں متہم نہیں کرتے تھے بلکہ صرف آپ سے قاتلین عثمان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 3۔ قیس رضی اللہ عنہ کے نام معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک خط، جس میں علی رضی اللہ عنہ بحیثیت فریق دکھائے گئے ہیں: رافضی روایات قیس رضی اللہ عنہ کے نام معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک فرضی خط ثابت کرتی ہیں جس میں علی رضی اللہ عنہ کو قتل عثمان کی واردات میں بحیثیت ایک فریق دکھایا گیا ہے، حالانکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کسی تحریر کا صادر ہونا درست نہیں ہے، کیونکہ اس معاملہ میں علی رضی اللہ عنہ کی براء ت بالکل ظاہر ہے جیسا کہ گزشتہ عبارتوں میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے قول سے اس کے خلاف ثابت کیا جاچکا ہے، اس معاملہ میں علی رضی اللہ عنہ کی براء ت اتنی عام بات تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خود اس سے لاعلم نہیں ہوسکتے تھے، چہ جائیکہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو اس کا قائل کرتے۔ اس دور کے کبار تابعین میں محمد بن سیرین اور دیگر معاصرین کہتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے، لیکن ان کے قتل میں ہم نے کسی کی زبان سے علی رضی اللہ عنہ کو متہم کرتے نہیں سنا۔‘‘[6] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |