خلافت راشدہ کے عہد میں قضاء کی خصوصیات: دور نبوت کے نظام قضاء کے بعد خلافت راشدہ کے نظام قضاء کا درجہ آتا ہے، دونوں کی خصوصیات میں فرق صرف اتنا ہے کہ دور نبوت کا نظام قضاء اساس اور جڑکی حیثیت رکھتا ہے، جب کہ خلافت راشدہ کا نظام قضاء اگر ایک طرف اس کی مکمل تصویر اور مثالی تنظیم کی مثال پیش کرتا ہے تو دوسری طرف اسلامی نظام قضاء کا ایک روشن منظر سامنے لاتا ہے اور بعد کے تمام ادوار میں اسے قدوہ، مثل، نمونہ اور مطمح نظر ہونے کا درجہ حاصل رہا ہے۔بہرحال دور خلافت راشدہ میں نظام قضاء کی اہم خصوصیات کی طرف ہم اختصار سے اشارہ کر رہے ہیں: 1۔ عہد خلافت راشدہ کا نظام قضاء دراصل عہد نبوی کے نظام قضاء کا امتداد تھا، کیونکہ اسی کے اصولوں کی پابندی کی گئی، وہی منہج اختیار کیا گیا، اسی دینی تربیت، ایمان و عقیدہ کے ارتباط اور دینی محافظت کا رواج رہا، دعویٰ کی کارروائی میں سادگی اور عدالتی کارروائی کو مختصر سے مختصر کرنے کی کوشش رہی، اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع ہوجانے اوراس میں مختلف اقوام و شہروں کے داخل ہوجانے کے باوجود خصومات اور دعوؤں کی قلت رہی، قاضیوں کے عمدہ انتخاب اور ان میں مطلوبہ شرائط کی پوری پوری رعایت کی جاتی رہی۔ 2۔ خلافت راشدہ کا نظام قضاء ، اسلامی نظام قضاء کی صحیح، سچی اور درست تصویر پیش کرتا ہے، اسی لیے وہ نظام محققین اور فقہاء کی تمام تر توجہات کا مرکز رہا اور اس دور کے عدالتی فیصلے اور عدالتی نظم و نسق مختلف ادوار میں تمام علماء و مذاہب کے نزدیک اخلاقی حیثیت ہی سے سبھی فقہی خیالات، عدالتی اجتہادات اور شرعی احکامات کے مصدر قرار پائے۔ اگرچہ مسائل کی تدقیق اور جزئیات و تفصیلات کی تعیین میں اختلاف رہا، مثلاً اصول فقہ، مصطلح حدیث اور تاریخ تشریع اسلامی کی کتب میں یہ بحث کہ صحابی کا قول حجت ہے یا نہیں؟ ان شاء اللہ اس سلسلہ میں تفصیلی گفتگو آئندہ صفحات میں ہوگی۔ 3۔ خلفائے راشدین اور ریاستوں کے بعض گورنران نے براہ راست نزاعی مسائل کو حل کیا اور منصب ولایت کے ساتھ منصب قضاء کو سنبھالا اور دیوانی و نظام حسبہ (عام نگرانی کا منصب) پر بھی پوری پوری توجہ دی۔[1] 4۔ خلفائے راشدین نے اکثر ریاستوں اور شہروں میں منصب قضاء کے لیے مستقل قاضیوں کو مقرر کیا، یہ بالکل ابتدائی شکل اورایسے مراحل کا آغاز تھا جس میں عہد قضاء کو دیگر مناصب سے الگ کردیا گیا تھا اور بڑے بڑے شہروں میں جہاں قاضیوں کا تقرر ریاست کے گورنران کرتے تھے انھیں ان قاضیوں پر اختیار نہ ہوتا تھا، جب کہ چھوٹی ریاستوں میں گورنر ہی منصب ولایت کے ساتھ منصب قضاء کو بھی سنبھالتا تھا اور سب کے سب خلیفۂ راشد کے دائرۂ احتساب اوراس کی نگاہ میں ہوتے تھے۔ 5۔ عہد خلافت راشدہ میں قاضی حضرات مجتہد ہوا کرتے تھے۔ مسائل کے حل کے لیے براہ راست قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان دونوں کے مطابق فیصلہ کرتے، اگر پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |