ان صحابہ کا بھی انتظار کیا ہو یا بلایا ہو جو مدینہ سے باہر رہے ہوں، پس ان دونوں کا طرز عمل بتاتا ہے کہ غیرموجود صحابہ سے قطعِ نظر صرف ان صحابہ کی رائے سے اجماع منعقد ہوجاتا تھا جو مسئلہ کی بحث و تحقیق کے وقت موجود ہوتے تھے۔[1] خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے عدالتی و قانونی لائحہ عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی انھیں کوئی قضیہ پیش آتا یا نووارد مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوتا تو سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے، یہاں تک کہ جب اس میں کوئی حل نہ پاتے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے، اگر اس میں بھی نہ ملتا تو وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے اپنی رائے استعمال کرتے، خواہ وہ رائے اجتماعی ہوتی یا انفرادی، ان کی اجتماعی رائے سے اجماع کا وجود عمل میں آیا۔ یہ اسلامی قوانین کا ایسا مصدر ہے کہ دورِ نبوت میں جس کا وجود نہ تھا، کتاب اللہ اور سنت رسول کے بعد اسے تیسرے اسلامی مصدر کا مقام حاصل ہے اور چونکہ بہت سارے اسباب کی وجہ سے ہمیشہ یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی مسئلہ سے متعلق مشورہ لینے اور ایک خاص حکم پر متفقہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے صحابہ کو اکٹھا کرلیا جائے اس لیے صحابہ کرام فتویٰ اور قضاء کے لیے انفرادی رائے استعمال کرنے پر مجبور ہوئے اور اپنے انفرادی و اجتماعی آراء و اجتہادات میں کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مفاسد کے ازالہ ومصالح کو ترجیح دینے والی شریعت کے مقاصد سے واقف عمیق دینی بصیرت پر اعتماد کیا اور ایسے نووارد مسائل جن کا کوئی حکم نہ ملتا تھا، شریعت کی روح و مزاج کو سامنے رکھ کر ان پر حکم لگایا اور صرف نصوص کے ظاہری الفاظ پر کوئی فیصلہ نہ دیا، بلکہ انھوں نے عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے قیاس کو استعمال کیا، اسلامی قوانین کے مصادر کا چوتھا مصدر قیاس ہی رہا، جس کا درجہ اگرچہ اجماع کے بعد ہے، لیکن وجود کے اعتبار سے پہلے ہے۔[2] پس خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے جن مصادر شریعت پر اعتماد کیا وہ بالاختصار یہ ہیں: 1۔ قرآن مجید: یہ بنیادی اساس ہے، یہی سرچشمہ حکمت ہے، آیت نبوت اور بصائر و بصیرت کا نور ہے اور اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ 2۔ سنت: یعنی صحیح اسناد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ثابت ہے۔ 3۔ اجماع: اجماع صرف وہی معتبر ہوگا جو قرآن، سنت، یا قیاس صحیح کی بنیادوں پر قائم ہو۔ 4۔ قیاس: خلفائے راشدین اور صحابہ کرام حوادث و مسائل کے لیے جو احکامات صادر کرتے تھے ان میں مصلحت کی ترجیح یا مفاسد کے ازالہ کی رعایت واجبی طور سے کرتے تھے، اسی طرح غیرمنصوص مسائل میں ان کے اجتہاد کا دائرہ وسیع ہوا کرتا تھا، جس میں لوگوں کی ضروریات اور مفادات کی پوری رعایت ہوتی تھی۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |