Maktaba Wahhabi

461 - 1201
قانونی و عدالتی نظم و نسق کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی نزاعی مسئلہ پیش آتا تو آپ اللہ کی کتاب میں دیکھتے، اگر اس میں کوئی حل مل جاتا تو فریقین میں وہی فیصلہ کردیتے اور اگر اس سلسلہ میں قرآن سے کچھ نہ ملتا بلکہ اگر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حل ملتا، تو اسی سے فیصلہ کردیتے اور اگراس سلسلہ میں سنت رسول بھی خاموش ہوتی تو ممتاز شخصیات صحابہ کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ لیتے، پھر جس بات پر وہ سب متفق ہوجاتے آپ اسی سے فیصلہ کردیتے، عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے عہد حکومت میں ایسا ہی کرتے رہے، البتہ جب کسی مسئلہ کا حل قرآن و سنت میں آپ کو نظر نہ آتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فیصلوں پر نظر ڈالتے، اگر ان کا کوئی فیصلہ مل جاتا تو وہی فیصلہ صادر فرماتے، ورنہ ممتاز شخصیات کو اکٹھا کرتے اور وہ لوگ جو متفقہ رائے پیش کرتے وہی فیصلہ صادر فرماتے۔[1] ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آج کے بعد اگر کسی کے سامنے فیصلہ کی کوئی بات آئے تو وہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کرے، اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس کا حل اللہ کی کتاب سے نہ ملے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو صالحین (ممتاز صحابہ) کے فیصلوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے اور اگر مذکورہ مصادر میں سے کسی میں بھی اس کا فیصلہ نہ ملے تو اجتہاد کرے اور اپنی رائے سے فیصلہ دے، لیکن اجتہادی فیصلہ سناتے وقت یہ نہ کہے کہ یہ میری رائے ہے اور مجھے خوف ہے اس لیے کہ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہات ہیں، پس مشکوک چیز پر غیر مشکوک کو ترجیح دو۔[2] بہرحال پچھلے صفحات میں جہاں میں نے حکومتِ علی رضی اللہ عنہ کے اساسی مآخذ کا تذکرہ کیا ہے وہاں تفصیل سے یہ بات بتائی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے فیصلوں میں مذکورہ منہج ہی کو اختیار کرتے تھے اور یہاں جو آثار منقول ہیں ان سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام اپنی قانونی و عدالتی کارروائیوں میں کسی رائے کو ترجیح دینے سے قبل کتاب اللہ اور سنت رسول پر اعتماد کرتے تھے۔[3] ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ آثار صحابہ پر تھوڑی دیر توقف کریں اور چند نتائج مستنبط کرتے چلیں، چنانچہ بالاختصار وہ نتائج یہ ہیں: 1۔ قانونی و عدالتی لائحہ عمل میں درجہ بندی پر تمام صحابہ متفق تھے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اجتہاد اور فقہی بصیرت کو ترتیب سے عمل میں لاتے تھے، جن کا آغاز کتاب اللہ سے ہوتا تھا، پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے، پھر اجماع اور آخر میں قیاس کا سہارا لیتے۔ 2۔ اس لائحہ عمل میں سابقہ فیصلوں کا اہم کردار رہا، شرعی نصوص کتاب وسنت کے بعد انھیں کو درجہ دیا گیا۔ 3۔ اس لائحہ عمل کا ایک پہلو خاص طور سے قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما انھیں صحابہ سے مشورہ لیتے جو مدینہ میں موجود ہوتے، ایسی کوئی عبارت کہیں نہیں ملتی کہ کسی اجتہادی مسئلہ میں مشورہ لینے کے لیے آپ نے
Flag Counter