Maktaba Wahhabi

464 - 1201
کوئی صریح حکم نہ پاتے تو اپنے اسلاف کے فیصلوں کا سہارا لیتے، معاصر علماء سے مشورہ کرتے، پھر اپنے اجتہاد کی روشنی میں جس نتیجہ پر پہنچتے اسی پر فیصلہ صادر کرتے۔ 6۔ دورِ نبوی کے نظام قضاء کا اسلوب و منہج اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت راشدہ کے دور میں قضاء کے جدید مصادر وجود میں آئے اور قرآن، سنت، اجماع، قیاس، دور نبوت اور پیشرو خلفاء کے گزشتہ فیصلے اور مشورہ کے ساتھ انفرادی و اجتماعی اجتہادات عدالتی احکام کے مصادر قرار پائے۔ 7۔ خلافت راشدہ کے عہد میں عدلیہ کو حکومتی سطح پر نہایت دقیق انداز میں منظم کیا گیا۔ عمر اور علی رضی اللہ عنہما نے عدلیہ کو منظم کرنے اور قضاء کے دستور ومنہج کو واضح کرنے کے لیے ریاستی حکام اور قاضیوں کے نام خطوط ارسال فرمائے۔ بایں ہمہ خلفائے راشدین نے اپنے اپنے عہد حکومت میں قاضیوں پر اپنی نگاہیں رکھیں، ان کی نگرانی کرتے رہے، ان سے تبادلۂ خیال کرتے، ان کے حالات اور فیصلوں کا جائزہ لیتے رہتے، اپنے اہم، پیچیدہ اور خطرناک معاملات میں ان سے بھی رائے مشورہ لیتے، دور فاروقی میں نظام قضاء کی مذکورہ خصوصیت اپنی اوج پر تھی۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس خصوصیت میں قدرے تخفیف ہوئی اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حالات و ظروف کی ابتری، فتنوں کی کثرت، خانہ جنگی، شام میں خود مختاری کے بیج اور اختیارات کے متعدد ہاتھوں میں ظہور کی وجہ سے یہ خصوصیات زیادہ ہی کمزور ہوگئیں۔ 8۔ خلافت راشدہ میں قاضی کے عدالتی اختیارات عموماً تمام تر احوال و واقعات کو شامل ہوتے تھے، اس کے اختیارات کا دائرہ وسیع ہوتا تھا اور عدالتی کارروائی کو انجام دینے میں اسے پوری آزادی حاصل ہوتی تھی، لیکن اس دور میں موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے قاضیوں کے اختیارات کی بنیاد پڑی۔ چھوٹے اور معمولی حوادث و مسائل کے لیے مستقل الگ اور بڑے بڑے واقعات و حوادث کے لیے جدا جدا قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا، جب کہ اکثر خلفاء جنایات و حدود کے معاملات کو خود سنبھالتے تھے، اگرچہ اس ضمن میں بعض گورنران ریاست کا بھی نام آتا ہے۔ اسی طرح اس عہد میں مدینہ ، کوفہ، بصرہ اور یمن جیسے بڑے بڑے شہروں میں ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر میں کئی کئی قاضیوں کا تقرر ہوا، نیز اسی دور میں پہلی مرتبہ اسلامی فوج کے لیے بھی مستقل قاضی کا تعین ہوا۔ 9۔ دور نبوی میں عدالتی احکامات کی نگرانی، قرآن و سنت اور ان دونوں کے موافق اجتہاد پر اعتماد کرنے کا جو رواج تھا اسے تاکید و تائید حاصل رہی، اجتہاد و رائے کو اعتماد اس لیے حاصل رہا کہ اجتہاد اپنے جیسے اجتہاد سے باطل نہیں ہوتا، ہاں جب قرآن اور سنت سے معارض ہو تبھی اسے باطل قرار دیا جاتا ہے۔[1] 10۔ خلافت راشدہ کے دور میں منظم شکل میں قاضیوں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں، ان کے لیے کشادگی کے سامان فراہم کیے گئے، قضاء کے لیے مستقل محکمہ کا قیام عمل میں آیا، مجرموں کو قید کرنے کے لیے قیدخانے تعمیر کیے
Flag Counter