Maktaba Wahhabi

951 - 1201
بطلان اس قدر واضح ہے جس کے لیے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس کا جھوٹ اس قدر صاف ہے جس کے لیے کسی نقاب کشائی کی حاجت نہیں۔ دراصل امت محمدیہ کی تکفیر صحابہ کرام کی تکفیر کا امتداد ہے۔ دونوں کا سبب ایک ہے، یہ طبعی میلان ہے جو شخص اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کینہ و حسد رکھے گا اورانھیں گالیاں دے گا، ان کی تکفیر کرے گا اس کا سینہ پوری امت محمدیہ کے خلاف کینہ و حسد سے بھرا ہوگا اور وہ سب کی تکفیر کرے گا جیسا کہ بعض اسلاف کا قول ہے کہ اگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کے خلاف کسی کا سینہ جل رہا ہوگا تو دیگر مسلمانوں کے خلاف کینہ و حسد سے اس کا سینہ پھٹنا یقینی ہے۔[1] چنانچہ یہ سچ ہے جو شخص ابوبکر، عمر، عثمان، اہل بدر، بیعت رضوان کے شرکاء اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سے راضی و مطمئن نہیں ہوسکتا حالانکہ یہ لوگ فضیلت و مرتبت اور عظمت و احسان کی چوٹی پر فائز ہیں تو بھلا ان کے بعد کے مسلمانوں سے وہ کیوں کر مطمئن اور راضی ہوسکتا ہے؟ دراصل اس گمراہی کی بنیاد روافض کا وہ دعویٰ ہے کہ جس میں وہ صحابہ کرام کو اس بات سے متہم کرتے ہیں کہ انھوں نے ’’نص خلافت علی‘‘ کا انکار کردیا تھا، میں عنقریب ہی اس دعویٰ، نص خلافت کی عقلاً، نقلاً اور تاریخی مشاہدات و تجربات کے دلائل سے ان شاء اللہ تردید کروں گا اور بتاؤں گا کہ جس کام کی بنیاد باطل پر ہو وہ بھی باطل ہے۔ صحابہ کرام کی سرکردہ جماعت پر ارتداد کا حکم لگانا ہی ایک ایسا جھوٹا پروپیگنڈا ہے جو روافض شیعہ کے عقائد و خیالات کی تردید کے لیے کافی ہے۔[2] اسی لیے ایک ایرانی نژاد آبائی شیعہ احمد الکسروی کا کہنا ہے کہ ’’وفات نبوی کے بعد مسلمانوں کے ارتداد کے بارے میں انھوں (روافض) نے جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ اور بہتان کی ایک گستاخانہ جرأت ہے، کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے، جب سارے لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے تب انھوں نے آپ کی تصدیق کی، آپ کی طرف سے دفاع کیا۔ خلافت صدیقی میں ارتداد کی ہوا چلنے پر انھیں لوگوں نے تکالیف اور مشقتیں اٹھائیں، پھر بھلا یہ لوگ کیوں کر اور کیسے مرتد ہوگئے؟ دو باتوں میں سے کس بات کا احتمال زیادہ ہے، بدنیت قسم کے ایک یا دو آدمیوں کو جھٹلانا، یا سیکڑوں سے زیادہ چیدہ و چنندہ مسلمانوں کو مرتد کہہ دینا؟ ذرا ہمیں اس کا جواب دو اگر تمھارے پاس کوئی جواب ہے؟‘‘[3] قرآن حکیم میں اللہ رب العزت عقائد کے اصول و حقائق کو واضح کرتا ہے اور وہ ہر چیز کے لیے تبیان ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (النحل: 89) ’’اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے۔‘‘ قرآن مجید کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جن احکامات پر دین قائم ہے اسے بیان کرنے میں اس میں کوئی کمی نہیں فرمایا:
Flag Counter