مخالفین[1] کے پاس جاتے ہیں اور ان سے ایسی احادیث سنتے ہیں جو انھیں کے خلاف ہماری دلیل بن سکتی ہیں، تو کیا ہم انہیں لے لیں؟ انھوں نے جواب دیا: تم ان کے پاس نہ جاؤ اور نہ ان سے سنو، ان پر اور شرک میں ڈوبی ہوئی ان کی ملتوں پر اللہ کی لعنت ہو۔[2] الکافی میں سدیر سے روایت ہے کہ ان سے ابوجعفر نے کہا کہ اے سدیر! کیا میں تمھیں اللہ کے دین سے روکنے والوں کو نہ دکھاؤں؟ پھر انھوں نے ابوحنیفہ اور سفیان ثوری پر نگاہ ڈالی، وہ لوگ ایک مسجد میں حلقہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے، انھیں دیکھ کر کہا: یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے دین سے روکنے والے ہیں، ان کے پاس اللہ کی کوئی ہدایت نہیں اور نہ کوئی واضح کتاب ہے، کیا اچھا ہوتا کہ یہ خبیث لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے، پھر لوگ ادھر ادھر بھٹکتے، انھیں کوئی آدمی نہ ملتا جو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں انھیں بتاتا، پھر وہ ہمارے پاس آتے اورہم انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتے۔[3] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے امت محمدیہ کے اسلاف اور ائمہ کے بارے میں کہ -جن سے اللہ راضی ہو چکا ہے- ان کے موقف کو واضح کیا ہے کہ انھوں (اہل تشیع) نے بشمول متقدمین و متاخرین پوری امت محمدیہ کی تکفیر کی ہے، یہ لوگ ابوبکر و عمر اور مہاجرین و انصار کے بارے میں عدالت کا عقیدہ رکھنے والوں اور اللہ کی رضا کے مطابق ان سے راضی رہنے والوں، اس کے حکم کے بموجب ان کے لیے استغفار کرنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں، سعید بن مسیب، ابومسلم خولانی، اویس قرنی، عطاء بن ابی رباح، ابراہیم نخعی اور مالک، اوزاعی، ابوحنیفہ، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، ثوری، شافعی، احمد بن حنبل ، فضیل بن عیاض، ابوسلیمان درانی، معروف کرخی، جنید بن محمد، سہل بن عبداللہ التستری اور دیگر بہت سے چوٹی کے علمائے اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، انھیں یہود و نصاریٰ سے بھی گیا گزرا کافر سمجھتے ہیں، اس لیے کہ ان کی نگاہوں میں یہود و نصاریٰ تو سرے سے کافر ہی ہیں، جب کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے ہیں اور ارتدادی کفر بالاجماع کفر اصلی سے بڑا جرم ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں کہ ان کے اکثر محققین کا خیال ہے کہ ابوبکر و عمر، بیشتر مہاجرین و انصار، عائشہ اور حفصہ جیسی ازواج مطہرات، ائمۃ المسلمین بلکہ عام مسلمان بھی پلک جھپکنے تک کے لیے ایمان نہ لائے، کیونکہ ان کے خیال میں جس ایمان کے بعد کفر آجائے اس ایمان کا قطعاً کوئی شمار نہیں، ان میں بعض کا یہاں تک خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ جس سے عائشہ اور حفصہ سے مجامعت کی ہے اسے جہنم کی آگ ضرور مس کرے گی تاکہ ان کے حسب عقیدہ کافرات کی وطی سے وہ پاک ہوجائے، کیونکہ کافرات سے وطی کرنا حرام ہے۔[4] یہ تکفیر عمومی جس سے کوئی نہیں بچ پایا ہے کیا مزید کسی تنقید و احتساب کی محتاج ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، اس کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |