Maktaba Wahhabi

81 - 1201
تھے، ان تمام بھائی بہنوں میں دس دس سال کا فرق تھا، چنانچہ طالب عقیل سے دس سال بڑے تھے اور ایسے ہی جعفر علی سے دس سال بڑے تھے۔[1] یہاں برادران علی کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ ٭ طالب بن ابي طالب: طالب بن ابی طالب کی غزوۂ بدر کے بعد حالت شرک میں موت ہوئی اورایک روایت ہے کہ وہ کہیں باہر گئے تھے، پھر واپس نہیں لوٹے اور ان کی کوئی خبر نہیں ملی، یہ ان لوگوں میں سے تھے جو کسی سفر میں راستہ بھٹک گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی محبت رکھتے تھے اور آپ کی شان میں نعتیہ اشعار بھی کہتے تھے، جنگ بدر کے موقع پر بادل ناخواستہ کفار کے ساتھ چلے گئے تھے۔ جب کفار قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محاذ آرائی کے لیے نکلے تھے تو انھوں نے طالب کو طعنہ دیا تھا کہ اے ہاشمیو! ہمیں خوب معلوم ہے کہ اگرچہ ہمارے ساتھ مجبوراً چل رہے ہو، مگر تمھاری ہمدردیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، چنانچہ وہ بدر کی جنگ میں کفار کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے نہیں لڑے، بلکہ مکہ واپس آنے والوں کے ساتھ واپس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں چند شعر اور ایک قصیدہ کہا اور مقتولین بدر پر مرثیہ کہا۔[2] ٭ عقیل بن ابي طالب رضی اللہ عنہ : جن کی کنیت ابویزید تھی، فتح مکہ کے وقت ایمان لائے، بعض روایات میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے۔ 8ھ کی ابتدا میں ہجرت کی، بدر کے موقع پر گرفتار ہو کر آئے تھے اور ان کے چچا عباس رضی اللہ عنہ نے ان کا فدیہ ادا کیا تھا، صحیح احادیث میں ان کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے، غزوۂ موتہ میں شریک تھے، فتح مکہ اورحنین کے سلسلہ میں ان کا نام نہیں ملتا، غالباً وہ ان دنوں بیمار تھے، ابن سعد نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے، لیکن زبیر بن بکار نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ غزوۂ حنین میں اصحاب رسول کے ساتھ ثابت قدم رہے، سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں ان کی وفات ہوئی۔ امام بخاری کی التاریخ الصغیر میں بسند صحیح مذکور ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ کی وفات حادثہ حرّہ سے پہلے یزید کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی،[3] ان کی عمر اس وقت (96) سال تھی۔[4] ٭ جعفر بن ابي طالب رضی اللہ عنہ : آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو شروع میں ہی اسلام لائے، سابقین اوّلین میں ان کا شمار تھا، آپ مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے پاس بیٹھا کرتے، ان کی خدمت کیا کرتے، ان سے گفتگو کرتے اور ان کے ساتھ گھل مل کر رہتے، آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، نجاشی (شاہ حبشہ) اور اس کے پیروکاروں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، آپ کی زندگی پر مزید روشنی میں نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ڈالی ہے۔ جمادی الاولیٰ 8ھ میں غزوۂ موتہ کے موقع پر مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت پائی۔[5]
Flag Counter