Maktaba Wahhabi

190 - 1201
اپنے اونٹ کو نحر کریں، اور سر مونڈنے والے کو بلا کر سرمنڈوا لیں، چنانچہ آپ نے یہ مشورہ پسند کیا اور باہر جاکر کسی سے کوئی گفتگو کیے بغیر اونٹ کو نحر کیا اور سرمونڈنے والے کو بلا کر سرمنڈوایا، جب صحابہ نے آپ کو ایسا کرتے دیکھا تو سب نے ہدی کے جانور کو ذبح کیے۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صحابہ کے بارے میں یہ سوچا کہ شاید وہ لوگ فرمان نبوی کو اپنے حق میں رخصت پر محمول کررہے ہیں اور خود اللہ کے رسول عزیمت پر عمل کرتے ہوئے احرام کی حالت میں باقی رہنا چاہتے ہیں، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پہلے حلال ہونے کا مشورہ دیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی دوسرا احتمال باقی نہ رہے۔ اس کی نظیر اس واقعہ میں ہے جو فتح مکہ کے وقت پیش آیا۔ رمضان کا مہینا تھا، حالت سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو روزہ توڑ دینے کا حکم فرمایا، لیکن وہ روزہ کی حالت میں باقی رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اٹھایا اور نوش فرمایا۔ جب صحابہ نے آپ کو پیتے ہوئے دیکھا تو سبھی نے پانی پی کر روزہ توڑ دیا۔[2] آخر الذکر تو جیہ سب سے عمدہ ہے اور یہی مقام صحابہ کے موافق ہے، یقینا ان کی نگاہوں میں احرام کی بڑی عظمت تھی اور عمرہ ادا کر کے ہی واپس جانا چاہتے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حلال ہونے کا حکم دیا اور خود حلال نہ ہوئے، تو انھوں سوچا کہ شاید ہم پر شفقت کھا کر آپ یہ حکم دے رہے ہیں، جیسا کہ ان کے ساتھ عموماً آپ کا ایسا ہی برتاؤ ہوتا تھا، لہٰذا جس کام کے لیے انھیں رخصت دی گئی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو ترجیح تھی، لیکن جب یہ دیکھ لیا کہ آپ حلال ہوگئے ہیں تو انھیں یقین آگیا کہ ہمارے حق میں بھی یہی افضل ہے اور پھر تعمیل حکم میں جلدی کی، بالکل اسی طرح کا واقعہ حجۃ الوداع میں بھی پیش آیا۔ چنانچہ جب لوگ مکہ پہنچے اور طواف و سعی سے فارغ ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم فرمایا کہ احرام کھول کر حلال ہوجائیں اور اسے عمرہ میں تبدیل کرلیں، حج کی تعظیم و احترام میں صحابہ پر یہ بات بہت گراں گزری اور کہنے لگے کہ کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں کہ ہماری شرمگاہوں سے منی کے قطرات ٹپک رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ((اَیُّہَا النَّاسُ اَحَلُّوْا فَلَوْ لَا الْہَدْیُ الَّذِیْ مَعِیَ فَعَلْتُ کَمَا فَعَلْتُمْ۔))’’لوگو!حلال ہوجاؤ اگر میں ہدی اپنے ساتھ نہ لایا ہوتا تو تمھاری طرح میں بھی حلال ہوجاتا۔‘‘ راوی حدیث جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر ہم نے احرام کھول دینے اور سمع و اطاعت کا مظاہرہ کیا۔[3] یہ سب اس لیے ہوا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل اسوہ کو اختیار کرنے اور خیر کے انتہائی حریص تھے۔[4] صلح حدیبیہ سے متعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اعتراض پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش موقف بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ کہ حکام، امرائ، علما اور دیگر مبلغین اسلام جن کے ہاتھوں میں اسلامی قیادت ہے انھیں کشادہ دل ہونا چاہیے، کسی کی رائے کو بغور سننا اور سوچنا چاہیے، مفاد عامہ کے حق میں رائے دہی کی اہلیت رکھنے والے ہر فرد کو
Flag Counter