Maktaba Wahhabi

216 - 1201
کی خلافت برحق اور مکمل ہے الحمد اللہ ایسے شخص کے لیے کوئی مصیبت نہیں۔‘‘[1] اس مفہوم کی توضیح وتائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات اس وقت کہی جب خوارج وروافض جیسے اہل بدعت اور نفس پرستوں کا ظہور ہوگیا، ابن تیمیہ[2] اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [3] 4: مذکورہ حدیث کی روشنی میں بعض روافض کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ اس وصیت نامہ میں علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ دعویٰ بھی باطل ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس دعویٰ کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’جسے یہ وہم ہو کہ یہ وصیت نامہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں لکھا جانا تھا، وہ علمائے اہل سنت والجماعت، اور علمائے روافض شیعہ دونوں کے عقیدہ کے مطابق بالا تفاق گمراہ اور جاہل ہے، اہل سنت تو اس پر متفق ہی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفۂ اوّل، اور سب سے افضل تھے اور شیعان علی جو کہ علی رضی اللہ عنہ کو امامت کا اوّلین مستحق قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت پہلے بالکل واضح اور معروف طریقہ سے آپ کو امامت کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے، ایسی صورت میں آپ کے استحقا ق کے اثبات کے لیے کسی وصیت نامے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔‘‘ [4] 5۔ اس حدیث کے حوالہ سے روافض شیعہ عمر رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے ’’أَھَجَرَ‘‘ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بے معنی کلام کرنے کی تہمت لگائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ سنی، اور کہا کہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ’’أَھَجَرَ‘‘ کے لفظ کے نسبت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا یکسر غلط اور باطل ہے۔ یہ بات اس موقع پر جو لوگ حاضر تھے ان میں سے کس نے کہی تھی؟ صحیحین کی روایات سے اس کے قائل کی تعیین نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے الفاظ ((فَقَالُوْا: مَاشَأْنُہُ أَھَجَرَ))میں قائل کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، لہٰذا عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا قائل نہیں مانا جاسکتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میرے خیال میں ایک تیسرا احتمال راجح ہے جسے قرطبی نے ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایسی بات کسی ایسے شخص نے کہی ہوگی جو نو مسلم رہا ہوگا، اور وہ پہلے سے جانتا رہا ہوگا جو شخص سخت مصیبت اورالجھن سے دوچار ہوتاہے وہ اس وقت میں اپنا اصلی مقصد اچھی طرح سے تحریر نہیں کرواپاتا۔‘‘[5] شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات عمر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی جب کہ اکثر روایات میں قائل کے لیے جمع کا صیغہ ’’قَالُوْا‘‘ واردہوا ہے۔‘‘[6] درحقیقت اس سلسلہ میں روایات جو صحیح اور ثابت ہیں اس میں یہ کلمہ صیغۂ استفہام کے ساتھ یعنی ’’أَھَجَرَ‘‘
Flag Counter