Maktaba Wahhabi

384 - 1201
جب آپ کے پاس کہیں سے مال آتا تو اس میں سے کچھ مال مناسب مقدار میں رفاعی کاموں کے لیے نکال لیتے اور بقیہ مال سب لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیتے، اور جتنا دوسروں کو دیتے خود بھی اتناہی لیتے، اپنے لیے کوئی امتیازی برتاؤ ہرگز پسند نہ کرتے، حتی کہ وہ خوارج جو آپ کے خلاف تھے ، انھیں بھی دوسروں کی طرح برابر حصہ دیتے۔[1] ٭ عوام الناس کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا طرز عمل اپناتے، کسی اعلیٰ کو ادنیٰ پر، عربی کو عجمی پر، ہرگز فوقیت نہ دیتے۔ ایک مرتبہ دو عورتوں کو آپ نے برابر برابر کھانا اور چند دراہم دیے، ان میں سے ایک عربی تھی اور دوسری عجمی۔ عربی خاتون نے کہا: میں ایک عربی خاتون ہوں اور یہ عجمی ہے۔ پھر بھی برابری؟ آپ نے اسے جواب دیا: اللہ کی قسم میں اس مال غنیمت میں بنواسماعیل کے لیے بنواسحاق پر کوئی فضیلت و برتری نہیں جانتا۔ اسی طرح ایک مرتبہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے عرب اور قریش کے اشراف نے وظائف و عطیات میں غلاموں اور عجمیوں پر اپنی فوقیت و ترجیح کا مطالبہ کیا، تو آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا، اگر میرا اپنا مال ہوتا تب تو میں سب کے درمیان برابری ہی کرتا تو بھلا اس مال میں کیسے نہ کروں جب کہ یہ انھی کا مال ہے۔[2] یحییٰ بن سلمہ کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سلمہ کو اصبہان کا عامل بناکر بھیجا تھا، وہ جب واپس آئے تو ملکی مال کے ساتھ گھی اور شہد سے بھرے ہوئے چند مشکیزے بھی لائے۔ اطلاع پاکر علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم نے عمرو بن سلمہ سے شہد اور گھی مانگا، انھوں نے ام کلثوم کے پاس دو مشکیزے بھجوا دئیے، دوسرے دن صبح ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کرنے کے لیے سارا مال مع شہد و گھی اکٹھا کیا، لیکن جب مشکیزے کو شمار کیا تو دو کم نظر آئے، آپ نے عمرو بن سلمہ سے ان کے بارے میں دریافت کیا۔ عمرو نے اس وقت کوئی واضح بات نہیں کہی بلکہ کہا: ہم ان دونوں کو لے آئیں گے، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے ٹھان لیا کہ بتانا ہی ہوگا، چنانچہ عمرو نے آپ کو پوری بات بتا دی، آپ نے ام کلثوم کے پاس سے دونوں مشکیزوں کو منگوا لیا، دیکھا تو اس میں سے تھوڑا تھوڑا شہد نکالا ہوا تھا، آپ نے تجارت پیشہ لوگوں سے کہا: ذرا اندازہ کرو، کتنا کتنا کم ہے۔ معلوم ہوا کہ تقریباً تین درہم کا شہد کم ہے، آپ نے ام کلثوم سے انھیں وصول کیا، پھر سارا مال تقسیم کردیا۔[3] ابورافع جو کہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیت المال کے خازن مقرر تھے، ان کا بیان ہے کہ ایک دن علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں داخل ہوئے، دیکھا کہ آپ کی بیٹی زیورات پہنے ہوئی ہے، آپ نے اس میں موتیوں سے بنے ہوئے زیور کو بھی دیکھا، آپ پہچانتے تھے کہ یہ بیت الما ل کا ہے، چنانچہ اپنی بیٹی سے پوچھا: یہ تمہیں کہاں سے ملا؟ اللہ کی قسم اگریہ چوری کا نکلا تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹوں گا۔ ابورافع کہتے ہیں: جب میں نے اس پر علی رضی اللہ عنہ کی سختی دیکھی تو بتا
Flag Counter