Maktaba Wahhabi

383 - 1201
رہے کہ ہمارے حکمران ہمارے دکھ درد میں ساتھ ہیں، اور حق دار مطمئن رہیں کہ ہماری حق تلفی نہیں ہونے پائے گی ، اگر کوئی ہم پر ظلم کرے گا تویہ حکمراں ہمیں انصاف دلائیں گے۔ اسی طرح جو شخص ظلم اور دوسروں کی حق تلفی کرتاہے وہ ڈر جائے، اور اس سے اہم یہ ہے کہ اللہ کی حق تلفی کرنے والے لوگ منصف حکمرانوں کی گرفت سے تھرّا جائیں۔ حاکم اور عایا کے درمیان اس احساس کے ساتھ گہرے روابط ہر دور میں انسانی زندگی کے حالات و ظروف کی رعایت کرتے ہوئے مختلف اشکال میں وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔ کوئی یہ نہ کہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایسا کرنا ممکن اور آسان تھا، دور حاضر میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ اشکال غلط ہے اس لیے کہ بعینہٖ وہی اشکال مطلوب نہیں ہیں بلکہ ان اہداف و مقاصد کی تکمیل مطلوب ہے جو مسلمانوں کو پرسکون زندگی دے سکیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ سب سے پہلے اللہ کے حقوق اور پھر رعایا میں ہر خاص و عام کے حقوق کی مکمل ادائیگی ہو۔ مذکورہ واقعہ میںعلی رضی اللہ عنہ کا ظالم کو کوڑے لگوانا حالانکہ مظلوم اسے معاف کرچکا ہے، درحقیقت اس با ت کی دلیل ہے کہ آپ نے اسلام کے ایک اہم مقصد یعنی مومنوں کے درمیان امن و سلامتی کے ماحول کو اہمیت دی، تاکہ اگر کسی کے دل میں ظلم و تعدی کا رجحان پیدا ہو تو وہ فوراً سوچ لے کہ دشمن اگر مجھے معاف کردے گا تو بھی حاکم وقت کی طرف سے سزا مل سکتی ہے۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عادلانہ موقف کی ایک مثال عاصم بن کلیب سے بھی مروی ہے۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس اصبہان[2] سے مال آیا، آپ نے اسے سات حصوں میں تقسیم کردیا، اس مال میں ایک خشک روٹی بھی تھی۔ آپ نے اسے سات ٹکڑوں میں توڑ دیا، اور ساتوں حصوں پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی کہ کسے پہلے دیا جائے۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں جہاں عادلانہ اصول کو زندہ رکھا وہیں مساوات برتنے میں بھی غافل نہ ہوئے، کیونکہ مساوات اسلام کے اہم و اساسی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿١٣﴾ (الحجرات:13) ’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اس اصول کو برتنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں، انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ
Flag Counter