یہودی نے کہا: امیر المومنین نے میرا معاملہ اپنے قاضی کے سامنے پیش کیا اور اس نے ان کے خلاف فیصلہ صادر کیا؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ دین حق ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ زرہ آپ ہی کی ہے، واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک خاکستری رنگ کے اونٹ پر سوار تھے اور صفین کی طرف جارہے تھے، رات کا وقت تھا اوریہ زرہ آپ سے گر گئی تھی، میں نے اسے اٹھا لیا تھا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب جب کہ تم نے حقیقت کا اعتراف کرلیا ہے تو یہ زرہ میں تمھیں دیتا ہوں، پھر آپ نے اسے ایک گھوڑا بھی سواری کے لیے عنایت فرمایا۔ قاضی شریح کا بیان ہے کہ پھر وہ چلا گیا اور بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ نہروان [1] میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کے خلاف لڑ رہا تھا۔ فیصلوں میں علی رضی اللہ عنہ کی عدل پرور صفت کا واقعہ ناحیہ القرشی سے مروی ہے وہ اپنے باپ کے توسط سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم باب قصر پر کھڑے تھے، اتنے میں ہمیں علی رضی اللہ عنہ دکھائی دیے، ہم آپ کی ہیبت سے مرعوب ہو کر ایک کنارہ پر کھڑے ہوگئے، جب آپ گزر گئے تو ہم بھی آپ کے پیچھے چل دیے، آپ سیدھا جارہے تھے کہ اچانک ایک آدمی نے آواز لگائی: اللہ کے لیے میری مدد کرو، آپ نے اس کی طرف دیکھا کہ دو آدمی باہم لڑ رہے ہیں۔ آپ نے دونوں کے سینے پر ایک ایک گھونسہ مارا، پھر دونوں سے کہا: یہاں سے ہٹ جاؤ، ان میں سے ایک نے کہا: اے امیر المومنین! اس نے مجھ سے ایک بکری خریدی تھی اور میں نے اس سے کہا تھا کہ قیمت میں مجھے گھٹیا و نقلی سکہ نہ دینا، پھر بھی اس نے مجھے وہی دیا اور جب میں نے اس کی رقم اسے واپس کردی تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے دوسرے سے پوچھا: تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: اے امیرالمومنین وہ سچ کہہ رہا ہے، آپ نے کہا: تو پھر اس کی شرط پوری کرو اور سنو! تم بیٹھ جاؤ، پھر جسے طمانچہ مارا تھااس سے کہا کہ اس سے بدلہ لو، اس نے کہا: اے امیرالمومنین! اگر معاف کردوں تو؟ آپ نے کہا: اس کا تمھیں اختیار ہے۔ چنانچہ اس نے معاف کردیا اور جب طمانچہ مارنے والا جانے لگا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے مسلمانو! اسے پکڑو، چنانچہ وہ پکڑ کر لایا گیا۔ پھر آپ نے اسے پندرہ کوڑے لگائے اور کہا: تم نے اس کی جو بے عزتی کی ہے یہ اس کی سزا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ (تعزیری سزا) حاکم کا حق ہے۔[2] یہ واقعہ تواضع کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ خود بخود اپنے گھر سے بازار جاتے ہیں تاکہ رعایا کے حالات معلوم کریں اور پھر خود ہی ان کی مشکلات کا حل ڈھونڈیں۔ علی رضی اللہ عنہ کا یہ بلند کردا رعایا کی زندگی میں گھل مل کر رہنے کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے، خواہ ملک کا اعلیٰ ترین حاکم اس ذمہ داری کو نبھائے یا اپنے ماتحت کارکنوں کو اس کے لیے مکلف کرے، ضروری نہیں کہ یہ عمل روزانہ دہرایا جائے، بلکہ کم ازکم اتنا ہو کہ لوگوں کو یہ شعور و احساس |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |