Maktaba Wahhabi

362 - 1201
اور جس قدر انسان کے دل میں زندگی ہوگی اسی اعتبار سے اس میں حیا و شرم زندہ ہوگی، اگر دل مکمل طور سے زندہ و بیدار ہے تو حیا بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ حیا کی قلت اسی وقت ہوتی ہے جب دل اور روح مردہ ہوجاتے ہیں۔[1] حیا، ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے، وہ انسان کو حسن سلوک اور اعمال ثواب پر ابھارتا ہے اور گناہوں سے روکتا ہے۔[2] اسی لیے حیا کا شمار ان اعلیٰ اخلاق میں ہوا ہے جن پر قرآن نے خصوصی توجہ دی ہے۔[3] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن یوں گویا ہوا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ (الاحزاب:53) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں مت داخل ہو مگر یہ کہ تمھیں کھانے کی طرف اجازت دی جائے، اس حال میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرنے والے نہ ہو اور لیکن جب تمھیں بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور نہ (بیٹھے رہو) اس حال میں کہ باتوں میں دل لگانے والے ہو۔ بے شک یہ بات ہمیشہ سے نبی کو تکلیف دیتی ہے، تو وہ تم سے شرم کرتا ہے اور اللہ حق سے شرم نہیں کرتا۔‘‘ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے کہ دعوت پرآئے ہوئے مہمان کھانے سے فارغ ہو کر واپس چلے جائیں، لیکن آپ شدت حیا اور کثرت لحاظ و مروت میں ان سے برجستہ اپنی خواہش کا اظہار نہیں کرپاتے۔[4] ایسا کیوں نہ ہو جب کہ آپ کی شان حیا یہ تھی کہ گھونگھٹ میں چھپی ہوئی دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے۔[5] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَلْحَیَائُ لَا یَأْتِیْ إِلَّا بِخَیْرٍ۔))[6]… ’’حیا تو صرف خیر ہی لاتی ہے۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت سرتاپا حیا میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ اس اخلاق حسنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ سوچ کر مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ کہیں گناہ میرے عفو و درگزر پر یا جہالت میری بردباری پر، یا بے پردگی میری پردہ پوشی پر، یا محتاجی میری سخاوت پر بھاری نہ پڑجائے۔‘‘[7] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس احساس میں چار معیوب صفات کا موازنہ چارممدوح صفات سے کیا ہے اور اللہ سے حیا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان انتقام لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود معافی کو ترجیح دے، بشرطیکہ اس گناہ کا تعلق حدودالٰہیہ سے نہ ہو اور جاہلوں کی جہالت کو نظرانداز کرکے بردباری کا ثبوت دے، دوسروں کے عیوب کی پردہ
Flag Counter