Maktaba Wahhabi

731 - 1201
دوسرے ہیں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما جو کہ ان کے ماموں زاد بھائی کے بیٹے ہیں، بایں طور کہ زبیر کی ماں صفیہ بنت عبدالمطلب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ آپ زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لین دین، قرض اور امانت رکھنے کا معاملہ کیا کرتے تھے۔ پس یہ چار صریح اور شک و شبہ سے پاک دلائل ہیں جو بتلاتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ اہل ثروت اور مال داروں میں سے نہ تھے۔[1] یہ بحث میں نے اس لیے چھڑی ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی دولت و ثروت، آپ کے گھوڑوں اور غلاموں کے بارے میں بہت کچھ مشہور ہے، چنانچہ بعض مصادر میں ہے کہ آپ ہزاروں غلاموں کے مالک تھے، روزانہ وہ سب آپ کو اپنی آمدنی کا خراج دیتے تھے، لیکن اس کا ایک درہم بھی آپ کے گھر میں نہیں جاتا تھا، اور آپ سب کو صدقہ کرتے تھے۔[2] لیکن بدنام زمانہ مستشرق ویل دیورانٹ کو کیا کہا جائے، اس نے ہزار کو دس ہزار بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زبیر دس ہزار غلاموں کے مالک تھے اور ان کے پاس ایک ہزار عمدہ معیار کے گھوڑے تھے۔ اس مستشرق نے نہایت ہوشیاری سے اس روایت سے یہ بات حذف کردی کہ آپ اپنے غلاموں کا خراج جو آپ کو روزانہ آتا تھا آپ اسے صدقہ کردیتے تھے۔[3] صحیح بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے سامنے اس خبر کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے کہ اس میں صراحت سے یہ مذکور ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ جب شہید کیے گئے تو آپ کے پاس کوئی درہم و دینار نہ تھا صرف غابہ کی کچھ زمین تھیں، مدینہ میں گیارہ، بصرہ میں دو اور کوفہ و مصر میں ایک ایک گھر تھا۔[4] یہ روایت بالکل واضح ہے، اس میں آپ کی ملکیت کو حصر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کا تذکرہ ایسے مقام پر ہو رہا ہے جہاں ادائیگی قرض کی فکر دامن گیر ہے۔ اگر آپ ہزاروں غلاموں کے مالک ہوتے تو اس کا ذکر یہاں ضرور ہوتا، ان کی قیمتیں اور معیار بتلائے جاتے، اگر کم از کم قیمت کی رعایت کی جائے تو کیا ایک غلام دوہزار درہم کا بھی نہ ہوتا۔[5] ضرور ہوتا اور غلاموں ہی کی قیمت سے کل قرض کی ادائیگی ہوجاتی، یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ ہم بفرض محال زبیر رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں ایک ہزار غلاموں کو تسلیم کرلیں، اب آپ سوچیں کہ اگر ہم مستشریق ول دیورانٹ کے بہتان کو صحیح مان لیں تو ا س کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح بخاری کی روایت کو اس کی جڑ سے کھرچ کر پھینک دیں، کیونکہ دس ہزار غلاموں اورایک ہزار گھوڑوں کی قیمت، ہزار نقصان کے باوجود آپ کے قرض کی ادائیگی مزید برآں آپ کے ورثاء کو دولت میں ڈبونے کے لیے کافی تھی، جبکہ ایسی صورت حال میں آپ کو اپنے بیٹے عبداللہ سے یہ کہنے کی چنداں ضرورت ہی نہ
Flag Counter