Maktaba Wahhabi

1038 - 1201
ہے، بلکہ یہ تو ان مشرکین کا دین ہے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴿٢٣﴾ (نوح: 23) ’’اور انھوں نے کہا تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ودّ کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں: ’’یہ پانچوں قوم نوح کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مرگئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں سے کہا کہ ان کی تصویریں بنا کر تم اپنی مجالس میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، اور ان کے زمانہ تک ان کی عبادت نہیں کی گئی، لیکن جب تصویریں بنانے والے فوت ہوگئے اور اس کی حقیقت بعد والی نسلوں کے سامنے نہ رہی تو ان کی عبادت کی جانے لگی۔‘‘[1] بہرحال یہ سب تو حبّ علی کے دعوے داروں کا کردار ہے، لیکن خود علی رضی اللہ عنہ ابوالہیاج اسدی کو اس سے منع فرماتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ کیا تمھیں اس مہم پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا: ((اَنْ لَّا تَدَعَ تِمْثَالًا اِلَّا طَمَسْتَہُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا اِلَّا سَوَّیْتَہٗ۔)) [2] ’’تم تمام نصب کنندہ تصویرکو مٹا دینا اور جو بھی ابھری ہوئی قبر ملے اسے برابر کردینا۔‘‘ اس معنی و مفہوم کا اعتراف خود بعض شیعی روایات کو بھی ہے، چنانچہ کلینی ابوعبداللہ سے روایت کرتا ہے کہ امیرالمومنین نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ کہہ کر مدینہ بھیجا: ((لَا تَدْعَ صُوْرَۃٌ اِلَّا مَحَوْتَہَا وَلَا قَبْرًا اِلَّا سَوَّیْتَہٗ۔)) [3] ’’کسی بھی تصویر کو دیکھنا تو اسے مٹا دینا اور قبر کو دیکھنا تو اسے برابر کردینا۔‘‘ ابوعبداللہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نماز پڑھنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تیار کرنے سے منع فرمایا۔[4] ابوعبداللہ ہی کا کہنا ہے کہ قبروں پر عمارت نہ بناؤ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام ٹھہرایا ہے۔[5] اور یہی ابوعبداللہ اپنے آباء کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چوناگچ کرنے سے منع فرمایا۔[6]
Flag Counter