شہادت کے بعد اور علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں یہ عقائد منظر عام پر ضرور آئے لیکن عوام کے دلوں میں سبائیت ابھی ایک منظم فرقہ کی شکل میں اپنا وجود ثابت نہیں کرسکتی تھی، وہ مسلسل اپنا سر اٹھانے کی کوشش کرتی رہی اور علی رضی اللہ عنہ اسے کچلتے رہے، بالآخر اس کشمکش کے نتیجہ میں معرکۂ صفین، واقعۂ تحکیم، شہادت علی اور پھر شہادت حسین کی شکل میں پیش آنے والے بھیانک حادثات نے ان عقائد کو فرقوں اور جماعتوں کی شکل میں منظر عام پر آنے کے لیے مناسب ماحول پیدا کردیا۔ یہ تمام حادثات آل بیت سے شدید محبت اور ان سے جذباتی لگاؤ کا سبب بنتے گئے، پھر علی اور آپ کے آل بیت سے محبت کے چور دروازہ سے مختلف نووارد افکار در آئے، اس طرح تشیع، اسلام کو زک پہنچانے کے لیے ہر ملحد، منافق اور طاغوت کا وسیلہ بنا اور اسی کا لبادہ اوڑھ کر متعدد نامانوس اور غیر اسلامی عقائد و نظریات کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ رفتہ رفتہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور نقصانات بڑے ہوتے گئے، ابن سبا کے بہت سارے جانشین تیار ہوگئے۔ جب کہ یہی شیعیت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں فقط آپ کی مدد اورحمایت کے لیے معروف تھی، روافض شیعہ کا آج جو عقیدہ ہے درحقیقت اس معنی میں اس لفظ کا استعمال قطعاً نہیں ہوا تھا۔[1] بلاشبہ آل بیت سے عقیدت و ہمدردی ایک فطری امر ہے، لیکن حُبِّ علی کے دعوے دار فرقوں کی طرح یہ محبت آل علی میں تفریق، ان کی عقیدت میں مبالغہ آرائی اور کسی صحابی کی تحقیر و تنقیص کی اجازت نہیں دیتی اور پھر علی رضی اللہ عنہ ، بعدہ حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کی شہادت سے آل علی کو جن آزمائشوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے تئیں محبت و ہمدردی میں مزید اضافہ کا سبب بنتی گئیں اور ان المناک واقعات نے مسلمانوں کے جذبات کو بے قابو کردیا، یہیں سے حاسدین و دشمنان اسلام کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا کیونکہ اس سے پہلے فضا ہموار نہ تھی۔ بہرحال شیعیت بمعنی امامت کی تنصیص، عقیدۂ رجعت، عقیدہ بدأ، ائمہ کی معصومیت اور ان کا عالم غیب ہونا یہ ایسے عقائد ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، یہ مسلمانوں میں باہر سے گھس آئے ہیں اور ان کی جڑیں مختلف ہیں۔ اسلام کے تئیں وسیع نقصانات پہنچانے کے پس پردہ بس ایک ہی اہم سبب کارفرما رہا وہ یہ کہ یہودیوں، نصرانیوں اور مجوسیوں میں سے جس نے بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کی اور اسلام کے نام پر اپنے عقائد کو رواج دینا چاہا، وہ تشیع کی سواری پر سوار ہوئے، جس کے نتیجہ میں شیعیت میں بہت سارے فاسد عقائد کو جگہ مل گئی، اگلے صفحات میں جہاں شیعی عقائد پر تفصیلی گفتگو ہو گی وہاں آپ اس حقیقت کو تفصیل سے ان شاء اللہ پڑھ سکیں گے، اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہناپڑا کہ شیعوں نے اپنے بہت سارے عقائد و نظریات اہل فارس، اہل روم، اہل یونان، نصاریٰ اور یہودیوں وغیرہ سے لے کر انھیں تشیع میں شامل کر دیا ہے اور اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی کی تصدیق ہوتی ہے جس میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |