Maktaba Wahhabi

788 - 1201
اشعری رضی اللہ عنہ صلح و سلامتی اور اتفاق بین المسلمین کی طرف بلانے والوں میں شامل تھے اور ان سب کے ساتھ عراق میں آپ امین و محبوب نظر بھی تھے اور قدیم مصادر کے حوالہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ہی نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بحیثیت’’حکم‘‘ منتخب کیا تھا، چنانچہ خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں: ’’37ھ میں دونوں ’’حکم‘‘ اکٹھا ہوئے، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اور عمرو بن عاص، معاویہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے۔‘‘[1] اور ابن سعد لکھتے ہیں: ’’لوگوں نے لڑائی کو ناپسند کیا اور ایک دوسرے کو صلح کی دعوت دی، دو ’’حَکم‘‘ مقرر کیے، علی رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ’’حکم‘‘ منتخب کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم بنایا۔‘‘ [2] تاریخ کے اس حوالہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ دعویٰ کہ معرکۂ صفین میں جنگ بندی اور تحکیم کا شاخسانہ اس جنگ میں جانے والے قراء (علماء و حفاظ) کا تھا اورانھوں نے ہی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ’’حکم‘‘ مقرر کیا تھا، قطعاً ایک تاریخی جھوٹ ہے، جسے ان شیعی مؤرخین نے گھڑا ہے، جو باطل و موضوع روایات کے سہارے اسلامی تاریخ کی شفافیت کو جھوٹ سے مکدر کرنے سے پیچھے نہیں رہتے، انھیں یہ پریشانی تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی ہمدردی کیوں کر ظاہر ہو اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصورکیوں آئے کہ وہ اپنے آبائی دشمنوں کے ساتھ صلح کے خواہاں تھے اور کبھی یہ لوگ جنگ بندی اور تحکیم کی ذمہ داری اپنے دشمنوں یعنی خوارج کے سر تھوپ کر اپنا دامن بچاتے ہیں اس طرح ان کے بقول خوارج تناقض کا شکار ہوئے گویا خوارج ہی نے علی رضی اللہ عنہ کو ’’تحکیم‘‘ قبول کرنے پر مجبور کیا اور پھر انھیں خوارج نے ’’تحکیم‘‘ قبول کرنے کی وجہ سے آپ کے خلاف بغاوت کی۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور کارناموں پر قلم اٹھاتے ہوئے اگر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی زندگی پر ایک سرسری نگاہ نہ ڈالی جائے تو آپ کی سیرت ادھوری رہے گی، اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایک مؤثر شخصیت تھی، جسے بدباطنوں کی کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا اور خاص طور سے اگر کسی نے جنگ صفین اور تحکیم کے حوالہ سے گفتگو کی تو ابوموسیٰ اشعری اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما دونوں کی شخصیات ضعیف اور موضوع روایات کی وجہ سے جھوٹ اور افتراء اور طنز و عتاب کا نشانہ بنیں، اس لیے ہم پر ضروری تھا کہ ان کی پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی پر ضرور گفتگو کریں اور اسی مقصدکے پیش نظر ہم نے اس بحث میں یہ گفتگو کی ہے۔
Flag Counter