Maktaba Wahhabi

787 - 1201
عہد فاروقی میں آپ منصب قضاء پر بھی فائز ہوئے، قضاء کے بارے میں امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے جو خطوط آپ کے نام صادر ہوئے ہیں، وہ اپنے اصول و ضوابط میں یکتا و بے مثال ہیں اور ہر قاضی بلکہ ہر اداری ملازم کے لیے ہر زمانہ اور ہر جگہ میں یکساں مفید ہیں۔[1] علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ان خطوط کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ بڑی اہمیت کی حامل تحریریں ہیں، علماء نے ان پر اعتماد کیا ہے، انھیں کی روشنی میں فیصلوں اور گواہیوں کے اصول مقرر کیے ہیں، ان تحریروں کو پڑھنے، ان پر غور کرنے اور انھیں سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ایک مفتی کو ہوتی ہے۔[2] سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی آپ منصب ولایت پر باقی رہے، عثمان ذو النورین نے آپ کو بصرہ کا قاضی بنانا چاہا، جس وقت آپ کی وفات ہوئی، اس وقت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کوفہ کے گورنر تھے اور جب علی رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر سرفراز ہوئے تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے آپ کے لیے بیعت لی، کیونکہ عہد عثمان ہی سے آپ وہاں کے گورنر چلے آرہے تھے اور جب خلیفۃ المسلمین علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جنگ کے لیے ذی قار سے آگے بڑھنے کو کہا تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو فتنہ اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات و انتشار کے آثار نظر آئے، تب آپ نے اہل کوفہ کو نصیحت کی کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو اوراس معاملہ سے دور رہو، کیونکہ یہ ایک فتنہ ہے جس میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہے، لیکن خلیفہ کے نظریہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے آپ کوفہ کی گورنری سے معزول کردیے گئے۔[3] مختصر یہ کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد کی اپنی پوری زندگی اسلام کی نشر و اشاعت، تعلیم دین اور خاص کر قرآن کی تلاوت جس میں آپ کو شہرت تھی، جہاد فی سبیل اللہ، اس کے لیے حرص، نزاعی معاملات کے تصفیہ اور قضاء و ولایت کے منصب کے ذریعہ سے ریاستوں کی تنظیم و تنسیق اور عدل و انصاف کے لیے وقف کردی، بلاشبہ یہ تمام کام اور ذمہ داریاں کافی دشوار اور سخت ہیں، انھیں انجام دینے کے لیے بہت مہارت اور علم و فہم، ذکاوت و مہارت اور ورع و زہد جیسی منفرد صفات کی ضرورت ہے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ان صفات حمیدہ سے بھرپور نوازے گئے تھے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اورآپ کے بعد چاروں خلفاء نے آپ پر اعتماد کیا، رضی اللہ عنہم [4] پس کیا جس شخص پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد چاروں خلفاء اس قدر اعتماد کرتے ہوں اس کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ’’تحکیم‘‘ کے معاملہ میں وہ اس سازش اور دھوکا کا شکار ہوئے ہوں جو بعض تاریخی روایات میں وارد ہے۔[5] یقینا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اہل عراق کے لیے ’’فیصل‘‘ منتخب کرنا، مکمل طور سے حالات کے موافق تھا، کیونکہ یہ دوسرا مرحلہ صلح و مصالحت اور اتحاد بین المسلمین کا مرحلہ تھا اورابوموسیٰ
Flag Counter