Maktaba Wahhabi

786 - 1201
ہیں، آپ کی مدت ولایت میں فارس کے مختلف معرکہ سر ہوئے، آپ بذات خود معرکہ میں شریک ہوتے تھے اور مختلف علاقوں میں بصرہ سے قائدین کو روانہ کرتے تھے، آپ ہی کی مدت ولایت میں بصریوں کو اہواز اور اس کے مضافات میں فتح حاصل ہوئی، آپ کی مدت ولایت مجاہدانہ سرگرمیوں سے لبریز ہے۔ آپ نے متعدد جنگوں اور فتوحات میں اپنے قرب و جوار کے گورنروں سے بھی مدد لی، مفتوحہ علاقوں کی تنظیم، ان پر عمال کی تقرری، سرحدوں کی حفاظت، اور مختلف سماجی شعبوں کو مرتب کرنے میں کافی محنت کی، مختلف معاملات میں آپ اور امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان مراسلات ہوئے، انھیں خطوط میں سے ایک خط میں عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری کی رہنمائی کی تھی کہ مجلس امارت میں لوگوں کا استقبال کس طرح کریں، اورایک خط میں انھیں ورع و تقویٰ اور رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے تلقین کی۔ یہ خط بڑا ہی قیمتی تھا، اس میں آپ نے لکھاتھا: اما بعد! سب سے نیک بخت وہ ہے جس کی وجہ سے اس کی رعایا نیک بخت رہے اور بدبخت وہ ہے جس کی وجہ سے اس کی رعایا بدبخت رہے، ملکی دولت کو تم خود نہ چرنا ورنہ تمھارے ماتحت افسران بھی چرنے لگیں گے۔ اس وقت تمھاری مثال اس جانور کی سی ہوجائے گی جس نے ہریالی دیکھی اور موٹاپے کی خاطر اس میں چرنا شروع کردیا، حالانکہ موٹاپے ہی میں اس کی موت ہے۔[1] عمر اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا کے درمیان مختلف خطوط کا تبادلہ ہوا، وہ سب کے سب مختلف اداری اور تنفیذی ضوابط پر مشتمل ہیں، جنھیں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ کی رہنمائی کے بموجب عمل میں لاتے تھے، اس طرح کے بیشتر خطوط کو جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے اپنی کتاب ’’الوثائق السیاسہ‘‘ میں جمع کردیا ہے۔[2] بصرہ پر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مدت ولایت وہاں کی سب سے بہترین مدت شمار کی جاتی ہے اور اس دور کی خوبیوں کی تعریف میں بصرہ ہی کی خمیر سے پیدا ہونے والے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل بصرہ کے لیے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی سوار نہیں آیا۔[3] کیونکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ امیر ولایت ہونے کے ساتھ اہل بصرہ کے سب سے اچھے معلم بھی تھے، آپ نے انھیں قرآن اور دیگر شرعی علوم کی تعلیم دی تھی۔[4] عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں کئی شہر فارس کے قبضہ میں تھے، جنھیں فتح کے بعد بصرہ کے تابع کردیا گیا اور وہ والی بصرہ کے زیراقتدار رہتے، پھر والی ان شہروں پر اپنی طرف سے عمال کی تقرری کرتا، جو راست طور سے والی ریاست سے مربوط ہوتے تھے، اس طرح ابوموسیٰ اشعری عمر رضی اللہ عنہ کے اہم و بڑے گورنران ریاست میں شمار ہوتے رہے اور دونوں کے مابین مراسلات کو ان اہم مصادر کا درجہ ملا جن سے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اپنے گورنروں کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت واضح ہوتی ہے۔[5] آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو نصیحت کی تھی کہ میرے کسی بھی عامل کو اس کے منصب پر ایک سال سے زیادہ باقی نہ رکھا جائے لیکن آپ نے خود ابوموسیٰ اشعری کو چار سال ان کے منصب پر باقی رکھا۔[6]
Flag Counter