Maktaba Wahhabi

411 - 1201
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ویح‘‘ کا لفظ رحمت کی دعا کرنے کے معنی میں مستعمل ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو علی رضی اللہ عنہ کے عمل سے اس لیے تکلیف ہوئی کہ وہ حدیث کی ممانعت کو ظاہر پر محمول کرکے تحریم کے قائل ہوگئے، اسی لیے علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات سن کر علی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کے ذریعہ سے ان کی رائے سے اتفاق کا اظہار کیا ہو کہ کیا ہی بہتر ہوا ابن عباس نے ایک بھولی ہوئی بات یاد دلادی۔ یہ احتمالی مفہوم اس لیے درست ہے کہ ’’ویح‘‘ کا لفظ تعریف اورتعجب کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔[1] آپ مزید لکھتے ہیں: آگ سے سزا دینے کے بارے میں اسلاف میں اختلاف رہا ہے، سیّدنا عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم مطلقاً اسے حرام سمجھتے تھے خواہ یہ سزا ارتداد کی وجہ سے دی جارہی ہو، یا قصاص میں ہو، یا حالت جنگ میں ہو۔ جب کہ سیّدنا علی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے۔ مہلب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدیث میں ممانعت تحریمی نہیں ہے، بلکہ بطور تواضع ہے، آگ کے ذریعہ سے سزا دینے کے جواز پر صحابہ کا عمل ثابت ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیین کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائیاں پھیریں، اور صحابہ کی موجودگی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے باغیوں اور مرتدین کو آگ سے جلایا۔ خالد بن ولید نے بھی مرتدین کو آگ سے جلایا اور مدینہ کے اکثر علماء دشمن کے قلعوں اور ان کی سواریوں کو نذر آتش کرنے کی اجازت دیتے رہے، یہی مسلک امام ثوری اور اوزاعی کا بھی ہے۔ جب کہ ابن المنیر وغیرہ مذکورہ دلائل سے جواز کے استدلال کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عرنیین کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ قصاص تھا، یا شروع اسلام میں اس کی اجازت تھی، پھر منسوخ ہوگیا، جیسا کہ یہ بات گزر چکی ہے اور جہاں چند صحابہ کا عمل اگر جواز پر دلالت کرتا ہے وہاں کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی ممانعت کے بھی قائل ہیں اور جہاں تک قلعوں اور سواریوں کو نذرآتش کرنے کی بات ہے تو یہ چیز ضرورت پر منحصر ہے جب کہ دشمن کو زیر کرنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہو۔ لہٰذا ان میں سے کوئی واقعہ جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔[2] علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوطی (اغلام باز) کو آگ سے جلایا اور آگ کی سزا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں دی، ہمارے اصحاب بھی اسی کے قائل ہیں کہ اگر امام وقت لوطی کو آگ میں جلانے کی سزا دینا مناسب سمجھے تو اسے یہ اختیار ہے ، اس لیے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا تھا کہ عرب کے فلاں علاقے میں کچھ لوگ ہیں جو مردوں سے عورت کی طرح نکاح کرتے ہیں (یعنی ہم جنسی کرتے ہیں) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا، ان میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ کی رائے سب سے سخت تھی۔ آپ نے فرمایا: یہ ایسا قبیح ترین گناہ ہے جسے دنیا میں صرف ایک قوم نے کیا تھا، اسے اللہ تعالیٰ نے جو سزا دی وہ آپ لوگ جانتے ہیں، میری رائے ہے کہ ان کو آگ میں جلادیا جائے، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو جوابی خط بھیجا کہ انھیں آگ میں جلا دو۔ یہی سزا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت
Flag Counter