Maktaba Wahhabi

408 - 1201
مزارات کے سائے تلے مدفون لوگوں کے بارے میں عوام الناس کا یہ عقیدہ بنا کہ یہ لوگ نفع و نقصان کے مالک اور ضرورتوں کو پوری کرنے والے ہیں، پھر کمال یہ ہوا کہ سال کے کسی مخصوص دن میں ان کی قبروں پر ان کے نام سے ذبیحہ پیش ہونے لگا اور عوام الناس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر جذبۂ عقیدت سے ان قبروں کی طرف کھینچتے چلے آئے کہ جو اولاد سے محروم ہو، یا لاعلاج مرض میں مبتلا ہو وہ فلاں مزار کے پاس فلاں دن اگر ذبیحہ پیش کرتاہے تو بامراد واپس جائے گا۔ اس طرح یہ مزارات بامراد واپس ہونے کے اڈے قرار دے دیے گئے اور ان قبروں سے وہ سب کچھ مانگا جانے لگا جسے بندے اپنے رب سے مانگتے ہیں اور ان کے بارے میں عوام میں یہ عقیدہ راسخ ہوگیا کہ ان کے واسطہ سے اللہ سے سوال کرنے سے ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اگر کبھی قحط سالی کے آثار نظر آئے تو ان قبروں کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے ہیں تاکہ بارش ہوجائے یہ سب کام کتاب الٰہی اور سنت نبوی سے اعراض ہیں، ایسے موقع پر ان دونوں کا حکم ہے کہ کثرت سے توبہ واستغفار کیا جائے، دعائیں مانگی جائیں اور نمازیں پڑھی جائیں بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ جب یہ بدعقیدہ لوگ اپنے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں تب بارش ہوجاتی ہے، تو اسے شریعت نہ سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اورآزمائش ہے۔ ایسا کرنے والوں کا عمل فی الواقع شیطانی عمل اور جاہلی عقیدہ ہے۔[1] اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ باب کے آخر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی توحید کی دعوت دی، شرک اور اس کے اسباب کا قلع قمع کیا، لہٰذا آپ کے محبان و معتقدین پر واجب ہے کہ آپ کی باتوں اور آپ کے اعمال کو دیکھیں، جو کہ ہمیں قرآن کریم اور سنت نبوی پر کاربند ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ آپ نے نہایت مختصر انداز میں کتنی عمدہ بات کہی: ’’کوئی انسان اگرامید لگائے تو صرف اپنے رب سے اور ڈرے تو صرف اپنے گناہ کی وجہ سے۔‘‘[2]اور ابوالہیاج اسدی[3] سے آپ نے فرمایا تھا کہ کیا میں تمھیں اسی مہم پر روانہ نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر روانہ کیا تھا: ((أَنْ لَّا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَہٗ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَہٗ۔))[4] ’’کسی بت کو نہ چھوڑنا مگر اسے مسخ کردینا اور جو اونچی قبر ہو اسے برابر کردینا۔‘‘ و:…امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ستارہ پرستی کے عقیدہ کو باطل قرار دیتے ہیں: جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے جنگ کے لیے سفر پر نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک نجومی آپ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! قمر در عقرب ہے، اس لیے آپ سفر نہ کریں، اگر قمر در عقرب کے ہوتے ہوئے آپ سفر
Flag Counter