Maktaba Wahhabi

976 - 1201
مذکورہ قول میں شیعہ عقیدہ کے مطابق علی رضی اللہ عنہ کا کہیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ خطاؤں سے پاک ہیں، بلکہ اس کے برعکس آپ یقینی طور سے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے عمل کو غلطی سے مبرا نہیں سمجھتا۔ اسی طرح آپ نے اپنی رعایا سے مشورہ لینے سے بے نیازی کا اعلان نہیں کیا، بلکہ اس سے برحق اور عدل پر مبنی مشورہ کا مطالبہ کیا، اس لیے کہ امت کبھی گمراہی پر اجماع نہیں کرسکتی، ہاں انفرادی طور سے ہر شخص گمراہی اور غلطی میں واقع ہوسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ائمہ کے حق میں ’’عصمت‘‘ کا دعویٰ مبالغہ پرست شیعوں کا عقیدہ ہے۔[1] نہج البلاغہ ہی میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کا ایک امیر ہونا ضروری ہے، خواہ وہ نیک ہو یا فاجر کہ جس کی امارت میں تمام مومنین عمل کریں، اور اس کے ذریعہ سے فے جمع کیا جائے، دشمن سے جنگ لڑی جائے، راستہ و سفر مامون رہیں، ظالموں سے مظلوموں کا حق دلایا جائے۔[2] اس عبارت میں بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ’’امیر‘‘ کے لیے معصوم ہونے کی شرط نہیں لگائی بلکہ دور نزدیک کسی طرح سے اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا، صرف یہ کہا کہ امت کا ایک امیر و امام ضروری ہے تاکہ اس سے رعایا اور ملک کے مصالح و مفاد مربوط ہوسکیں، آپ نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ صرف امام معصوم ہی لوگوں کا قائد بن سکتا ہے اور امام معصوم کے علاوہ قیادت کا جو بھی جھنڈا قائم ہوگا وہ جاہلی جھنڈا ہوگا جیسا کہ شیعہ عقائد کا خیال ہے۔ اسی طرح شیعہ عقائد کے مطابق امارت کو صرف بارہ معصوم ائمہ میں محصور نہیں کیا، اور نہ ہی ان مسلم خلفاء کی تکفیر کی جنھوں نے منصب امارت سنبھالا، بلکہ امام کے وجود کو لازم قرار دیا گرچہ وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو، آپ نے اس کی امارت کو شرعی قرار دیا، بایں طور کہ اس کی امارت میں جہاد کو جائز ٹھہرایا، تو سوچنے کی بات ہے کہ جو شیعہ حضرات امام غائب منتظر کے ظہور تک جہاد کی ممانعت کے قائل ہیں ان کے اس عقیدہ کا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے کہاں تک تعلق ہے۔[3] اس لیے کہ ان کے نزدیک شرعی امامت صرف بارہ ائمہ ہی میں محصور ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ائمہ گناہوں کا اعتراف کرتے تھے اور ان سے اللہ کے لیے استغفار کرتے تھے، چنانچہ نہج البلاغۃ میں ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ اغْفِرِلِیْ مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ، فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَیَّ بِالْمَغْفِرَۃِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا وَ أیتُ مِنْ نَفِسی وَ لَمْ تَجِدْ لَہٗ وَفَائً عِنْدِيْ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرِلِیْ، مَا تَقَرَّبْتُ بِہِ إِلَیْکَ بِلِسَانِيْ ثُمَّ خَالَفَہُ قَلْبِیْ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ رَمْزَاتِ الْاَلْحَاظِ وَ سَقْطَاتِ الْأَلَفَاظِ وَ شَہْوَاتِ الْجَنَانِ وَ ہَفٰوَاتِ اللِّسَانِ۔)) [4] ’’اے اللہ میرے ان گناہوں کو بخش دے جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اگر میں گناہ کی طرف پلٹوں تو تومغفرت کی طرف پلٹ، بارالٰہا! جس عمل کے بجا لانے کا میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا
Flag Counter