Maktaba Wahhabi

977 - 1201
مگر تو نے اسے پورا ہوتے نہ پایا اسے بھی بخش دے۔ میرے اللہ! زبان سے نکلے ہوئے وہ کلمات جن سے تیرا تقرب چاہا تھا مگر دل ان سے ہم نوا نہ ہوسکا ان سے درگزر کر، پروردگار تو آنکھوں کے اشاروں، ناشائستہ کلمات اور دل کی بری خواہشات اور زبان کی ہرزہ سرائیوں کو معاف کردے۔‘‘ اس دعامیں آپ علی رضی اللہ عنہ کے اعتراف گناہ، توبہ کے بعد پھر گناہ، زبان کی لغزشوں، بری خواہشات اور زبان و دل میں عدم موافقت کے امکان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں شیعہ حضرات کے دعوائے ’’عصمت ائمہ‘‘ کی نفی کرتی ہیں، کیونکہ اگر علی رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ معصوم ہوتے تو گناہوں سے ان کے استغفار کا کوئی معنی نہ ہوتا، صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ تمام ائمہ کے بارے میں شیعہ کتب گواہ ہیں کہ دیگر ائمہ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی خطاؤں اور گناہوں کے لیے استغفار کیا ہے، پس اگر وہ معصوم ہوتے تو ان کے لیے گناہ نہ ہوتے کہ جس سے انھیں استغفار کی ضرورت پڑتی۔[1] واضح رہے کہ بزرگ علمائے شیعہ نے اس قسم کی دعاؤں کی توجیہ و تاویل کا سہارا لیا ہے، لیکن سب کی سب حقائق اور اثبات عصمت سے متعلق خود ان کے اصولوں سے متصادم ہیں۔[2] ایک دوسری چیز بھی دعوائے عصمت ائمہ کی تردید کرتی ہے: خود شیعہ مذہب کی کتب میں بعض مسائل اور مواقف سے متعلق ان کے ائمہ کے اقوال و نظریات میں تضاد نظر آتا ہے، جب کہ معصوموں کے اعمال متضاد نہیں ہوتے اور ان کے نظریات میں اختلاف نہیں ہوتا بلکہ موافقت پائی جاتی ہے اور ایک سے دوسرے کی تصدیق ہوتی ہے، تو ان کے اعمال و نظریات کا اختلاف عصمت کے خلاف ہے، جو کہ ان کے نزدیک امامت کے لیے ضروری شرط ہے، چنانچہ یہی وجہ رہی کہ ائمہ کے اعمال میں اختلافات کے مظاہر کو دیکھ کر بعض شیعہ حضرات دائرہ تشیع سے نکل گئے، کیونکہ اختلافات کے انھیں مظاہر نے انھیں شک میں ڈال دیا، چنانچہ شیعہ عالم القمی اور نوبختی کی تحریریں ہماری بات کا واضح ثبوت ہیں۔ یہ دونوں لکھتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام کی ایک جماعت حیرت زدہ ہوگئی، اور کہا: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا موقف ہمارے لیے باعث تشویش بن چکا ہے، اس لیے کہ اگر حسن رضی اللہ عنہ کا عوامی تائید اور بھرپور نفری مدد پانے کے باوجود معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرلینا اور ان سے مقابلہ کی طاقت نہ پاکر ان کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوجانا برحق، واجب اور درست تھا، تو عوامی تائید اور نفری معاونین کی قلت کے باوجود حسین رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ سے جنگ لڑنا اور یزید کی فوج کی کثرت و قوت کے سامنے خود کو قربان کردینا اور اپنے ساتھیوں کو موت کے منہ میں ڈال دینا ہی غیرضروری اور باطل تھا۔ کیونکہ اگر حسن نے معاویہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور ان سے مصالحت کرلی تھی تویہ بات حسین کے لیے زیادہ ہی قابل عذر تھی کہ وہ یزید سے مصالحت کرلیتے اور ان سے جنگ نہ چھیڑتے۔ اگر حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے ساتھ جنگی موقف، پھر اس میں ایسی شدت کہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو بھی قربان کردیں، برحق، واجب اور درست تھا تو حسن رضی اللہ عنہ کی معاویہ کے ساتھ مصالحت اور ان کے حق میں دست برداری،
Flag Counter