ڈال دیا جائے، اسی وجہ سے آپ نے قصاص کو مؤخر کیا تھا اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بھی تھی کہ جب حادثۂ افک کے موقع پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں بہت سارے لوگوں نے چہ میگوئیاں کی تھیں اور عبداللہ بن ابی ابن سلول اس میں سب سے گھناؤنا کردار ادا کررہا تھا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: ((مَنْ یَعْذُرُ نِيْ فِيْ رَجُلٍ وَصَلَ اَذَاہُ إِلَی أَہْلِيْ؟)) ’’ایسے آدمی سے چھٹکارا دلانے میں کون میری مدد کرے گا، جس نے میرے گھروالوں کو تکلیف دی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی بن سلول کو مراد لے رہے تھے۔ یہ سننا تھا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! اس سلسلہ میں میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر وہ شخص ہمارے اوس قبیلہ سے ہوگا، تو ہم اسے قتل کردیں گے اور اگر ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہے تو آپ ہمیں اس کے قتل کرنے کا حکم دیں، ہم اس کاکام تمام کردیں گے۔ پھر سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ اٹھے جو کہ خزرج کے سردار تھے، پھر سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما میں تو تو میں میں ہوگئی، ادھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، انھوں نے بھی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہا، پھر آوازیں بلند ہوگئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں خاموش کرنے لگے۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوگیا کہ معاملہ نازک ہے، اور اس کا نتیجہ خراب ہوسکتا ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمدسے پہلے اوس و خزرج کے لوگ عبداللہ بن ابی بن سلول کو اپنا سردار بنانا چاہتے تھے، ان کی نگاہوں میں اس کا بڑا اونچا مقام تھا اور کون نہیں جانتا کہ اسی نے غزوۂ احد کے موقع پر مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا اور اپنی ایک تہائی فوج لے کر واپس لوٹ آیا تھا، لیکن اس کی ان تمام خباثتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد نافذ نہیں کی۔ تو سوال یہ ہے کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ موقف کیوں اختیار کیا؟ واضح بات ہے کہ آپ کی نگاہ مصلحت ومفسدہ پر تھی۔ آپ نے سوچا کہ اس پر کوڑے لگانے کے نقصانات، چھوڑ دینے کے بالمقابل کہیں زیادہ ہیں، یہی نظریہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی کارفرما تھا، چنانچہ آپ نے سوچا کہ قصاص کو مؤخر کرنے کے نقصانات اس کی فوری تنفیذ کے مقابلہ میں کم ہیں، کیونکہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی بالکل طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے قبیلہ والے ان کی طرف سے مدافعت کرتے۔ حالات بھی ہنگامہ خیز تھے، فتنہ عروج پر تھا اور کون کہہ سکتا تھا کہ اس اقدام پر وہ لوگ آپ کو قتل نہیں کریں گے؟ جب کہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ وہی لوگ آپ کے بھی قاتل ٹھہرے۔ [2] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس بات کے منتظر تھے کہ حالات درست ہوجائیں، امت مسلمہ متحد ہوجائے، دم عثمان رضی اللہ عنہ کے اولیاء کا مطالبہ قدرے نرم ہوجائے، تب مطالبین قصاص اور متہم افراد کو حاضر کیا جائے۔ دعویٰ اور جواب دعویٰ ہو، بینہ قائم ہو اور عدالت کی مجلس میں فیصلہ صاد رہو۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |