عبدالمطلب اپنے دادا قصی کی طرح بڑے مال دار، اور قریش کے تنہا مخدوم و مطاع نہیں تھے، بلکہ اس وقت مکہ میں ان سے زیادہ مال دار، صاحب حیثیت و وجاہت لوگ موجود تھے، البتہ اعیان مکہ میں ان کا شمار تھا، کیوں کہ سقایہ و رفادہ کا منصب انھیں حاصل تھا، وہ بئر زمزم کے متولی تھے اور زمزم کا بیت اللہ سے جو تعلق ہے اس کی بنا پر ان کی وجاہت میں اضافہ ہوا۔[1] عبدالمطلب کو بیت اللہ کی عظمت اوراس کے خانۂ خدا ہونے کا یقین اور اس کی نگہبانی و پاسبانی کا پختہ اعتماد تھا، اس کا اندازہ ان کی اس گفتگو سے کیا جاسکتا ہے جو یمن کے حاکم ابرہہ سے کی تھی، جب اس نے مکہ پر حملہ آور ہونے اور اس کی اہانت اور عظمت کو پامال کرنے کا ارادہ کیا، تو ابرہہ کے سپاہی عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھگا لے گئے، عبدالمطلب اس سے گفت و شنید کے لیے گئے، اس کے دربار میں جانے کی اجازت لی، ابرہہ نے ان کی تعظیم کی اور ان کے استقبال میں اپنے تخت سے اتر پڑا اور انھیں اپنے ساتھ بٹھایا، اور پوچھا: کیا حاجت ہے جس کے لیے تکلیف کی؟ عبدالمطلب نے فرمایا: میری حاجت یہ ہے کہ تمھارے آدمی میرے دو سو اونٹ بھگا کر لے آئے ہیں وہ واپس کردو۔ عبدالمطلب کی زبان سے یہ بات سن کر ابرہہ نے حقارت آمیز نگاہوں سے ان کو دیکھا اور بولا: تم دو سو اونٹوں کے بارے میں بات چیت کرنے آئے ہو اور اس ’’گھر‘‘ کو فراموش کر رہے ہو، جس سے تمھارے اور تمھارے آباء و اجداد کا دین وابستہ ہے اور جسے میں منہدم کرنے آیا ہوں۔ عبدالمطلب نے کہا: میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا ایک اللہ مالک ہے، وہ موجود ہے اور وہی اس کی طرف سے دفاع کرے گا، ابرہہ نے کہا: وہ مجھے اس سے نہیں روک سکے گا، عبدالمطلب نے جواب دیا: تم جانو اور وہ جانے۔[2] بالآخر وہی ہوا، جو عبدالمطلب نے کہا تھا، خانہ کعبہ کے مالک نے اپنے گھر کی حفاظت کی اورابرہہ کی سازش اور اس کی فوجی کاوش و کارروائی رائیگاں چلی گئی: وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾ (الفیل:3-5) ’’اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے۔ جو ان پر کھنگر ( پکی ہوئی مٹی) کی پتھریاں پھینکتے تھے۔ تو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔‘‘ عبدالمطلب اپنی اولاد کو ظلم و زیادتی سے باز رکھتے، اخلاقی و شرافت کے اصول پر قائم رہنے اور پستی و بداخلاقی سے دور رہنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔[3] اسّی (80) سال سے زیادہ عمر پانے کے بعد عبد المطلب نے وفات پائی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ (8) سال تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی وفات تقریباً 578ء میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |