Maktaba Wahhabi

674 - 1201
علی رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ نے جب شوروہنگامہ سنا تو کہا: یہ کیا ہوا؟ معلوم رہے کہ سبائیوں نے پہلے ہی سے اپنا ایک آدمی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا تھا جو ان کی سازش کے مطابق آپ کو حالات بتاتا، چنانچہ جب آپ نے کہا کہ کیا ہوا ؟ تو اس آدمی نے کہا: اچانک ان (زبیر وطلحہ) کے آدمیوں نے رات میں ہم پر حملہ کردیا، تو ہم نے انھیں پیچھے کیا، تب علی رضی اللہ عنہ نے میمنہ والے قائد سے کہا: میمنہ میں آئے، اور میسرہ والے سے کہا: میسرہ میں جاؤ اور سبائیوں کی حالت یہ تھی کہ وہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہتے تھے۔[1] باوجود یہ کہ مذکورہ انداز میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا، تاہم طرفین حقیقت حال جاننے کے لیے فکر مند تھے، علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ اس وقت تک جنگ نہ کی جائے جب تک فریق ثانی پر حجت قائم نہ کردی جائے، یہ لوگ نہ تو بھاگنے والے کو قتل کررہے تھے اور نہ کسی زخمی پر ہاتھ اٹھار ہے تھے، لیکن سبائیت تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔[2] اسی طرح دوسری جانب طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار اور لوگوں کی بھیڑ میں یہ اعلان کر رہے تھے، اے لوگو! کیا تم لوگ سمجھائے نہیں جارہے ہو؟ لیکن حالت یہ تھی کہ سب آپ پر چڑھے جارہے تھے اور آپ کی بات نہیں سن رہے تھے، اس وقت آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا کہ: ((اُفِّ اُفْ فِرَاشُ نَارٍ وَذَبَانُ طَمَعُہٗ))[3] ’’ستیاناس ہو، بر ا ہو آگ پر مرنے والوں اور حرص پر بھنبھنانے والی مکھیوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے، آگ پر جان دینے والے یہ پروانے اور حرص میں بھنبھنا نے والی یہ مکھیاں سبائیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے؟ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کے آخر تک اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ اب بھی صلح کا کوئی راستہ نکل آئے۔ مذکورہ تفصیل سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں عبداللہ بن سبا اور اس کے سبائی ہم نواؤں کا کتنا بڑا ہاتھ تھا، ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ صلح اور باہمی اتحاد ومحبت کے حریص ہوتے تھے، بے شمار شرعی نصوص اسی کی شہادت دیتے ہیں، اور اسی پر دل بھی مطمئن ہوتا ہے۔[4] لڑائی کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ معرکۂ جمل میں ’’سبائیت‘‘ کے گھناؤنے کردار پر تقریباً تمام علماء متفق ہیں خواہ اسے انھوں نے ’’مفسدین‘ ‘ کا نام دیا ہو ’’ددنوں فرق کے اوباش‘‘، ’’قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ یا ’’احمقوں‘‘ کا بدبختانہ لقب دیا ہو، یا ’’غوغائ‘‘ یعنی شور وغل کرنے والے کہا ہو، یا صراحتاً سبائی لکھا ہو[5] میں بالاختصار یہاں پر بطور چند اقوال نقل کررہا ہوں۔
Flag Counter