Maktaba Wahhabi

675 - 1201
عمر بن شبہ ’’أخبار البصرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جو لوگ قتل عثمان سے متہم تھے، وہ ڈرے کہ کہیں دونوں فریق ہمارے قتل پر مصالحت نہ کرلیں، اس لیے انھوں نے جنگ کو آگ بھڑکادی، پھر جو ہوا سو ہوا۔‘‘[1] امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’علی اور طلحہ رضی اللہ عنہم کی مرضی کے خلاف جنگ جمل پیش آگئی، اسے ’’مفسدین‘‘ نے رہروان اسلام کی مرضی کے خلاف بھڑکایا تھا۔‘‘[2] امام باقلانی فرماتے ہیں: ’’جب صلح پر باہم رضا مندی ہوگئی اور اسی پر مجلس ختم ہوگئی، تو ’’قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ ڈرے کہ اب ہماری خیر نہیں، اب ہم گرفتار کرلیے جائیں گے، اس لیے وہ سب اکٹھا ہو ئے، مشورہ کیا پھر اختلاف ہوا اور بالآخر اس با ت پر متفق ہوئے کہ وہ دو ٹولیوں میں بٹ جائیں اور دونوں لشکر وں میں مل ملا کر صبح ہوتے ہوتے لڑائی شروع کردیں، جو ٹولی علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جائے وہ لڑائی کے وقت یہ شور کرے کہ طلحہ اور زبیر نے بدعہدی کی اور جو ٹولی طلحہ اور زبیر کے لشکر میں جائے وہ یہ شور کرے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بدعہدی کی، پھرانھوں نے اپنی سازش کے مطابق آگے کی کارروائی انجام دی، اور لڑائی چھڑگئی، دونوں فریقین میں سے ہر ایک لڑائی کو ہٹانا چاہتا تھا اور اپنے خون کو بے کار ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور لڑائی کے وقت دونوں کا یہ موقف بالکل صحیح اور کار ثواب تھا۔ یہی صحیح بات ہے، اسی کی طرف ہمارا رجحان ہے اور اسی کے ہم قائل ہیں۔‘‘[3] قاضی عبدالجبار نے متعدد علماء کے اقوال نقل کیے ہیں کہ علی، طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم مصالحت، جنگ بندی اور حل کی تلاش پر متفق ہوگئے تھے، لیکن علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جو ’’دشمنان عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ تھے، انھیں یہ بات سخت ناگوار گزری اور ڈرے کہ کہیں آخری انجام ہمارے سر ہی نہ آئے، اس لیے انھوں جنگ کی آگ بھڑ کانے کی جوسازش کی وہ معروف بات ہے اور بالآخر جنگ ہوہی گئی۔[4] قاضی ابو بکر العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’علی رضی اللہ عنہ بصرہ پہنچے، دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب ہوئے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں، لیکن نفس پرستوں نے ان پر نگاہیں گاڑئے رکھیں، خون ریزی میں جلدی کی، جنگ کی آگ بھڑک اٹھی اور کم عقلوں کو شور و غل لے ڈوبا، یہ سب اس لیے ہوا تاکہ کسی کو ایک دوسرے پر حجت قائم کرنے کا موقع نہ ملے، حقیقتِ حال سامنے نہ آئے اور قاتلین عثمان چھپ جائیں، اگر ایک فرد کسی ایک لشکر کے
Flag Counter